316

میاں بیوی اور خراٹےےےےےےےےے۔

خراٹوں کی سب سے زیادہ شکایات بیگمات کی طرف سے اپنے شوہروں کے لئے ہوتی ہیں۔ در اصل شوہر ایک ایسی مخلوق کا نام ہے ، جو تکیے پر سر رکھنے کے دو منٹ بعد ہی اپنے منہ سے ایسی عجیب و غریب آوازیں برآمد کرتا ہے ، جیسے کوئی ڈبل ڈیکر بس زیادہ لوگوں کے بوجھ کی بدولت عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے چلنے پر مجبور ہوتی ہے۔ منہ سے نکلنے والی یہ عجیب و غریب آوازیں در اصل خراٹوں کی ہی ہوتی ہیں۔

ایسے شوہروں کی بیگمات جب ایک جج کی حیثیت سے اپنے شوہروں پر خراٹے مارنے کے جرم کی ”فرد جرم“ عائد کرتی ہیں تو ”حضرات شوہران کرام“ اس جرم کا صاف صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ”حکمت و بصیرت“ کا عملی نمونہ بنتے ہوئے بیگمات بھی فورا اپنے شوہروں کا انکار تسلیم کر لیتی ہیں۔ لیکن ابھی شوہر صاحب نے مکمل سکون کا سانس بھی نہیں لیا ہوتا کہ اگلے ہی دن بیگم صاحبہ دوبارہ ”ایمرجنسی عدالت“ نافذ کر دیتی ہیں اور اپنے شوہر کو موبائل کیمرے کے ذریعے بنی ہوئی وہ ویڈیو دکھاتی ہیں ، جس میں انہوں نے گزشتہ رات ہی شوہر کے خراٹوں کے خوفناک مناظر محفوظ کئے ہوتے ہیں۔ تب کہیں جا کر شوہر حضرات کو اپنا جرم نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ سمجھدار شوہر حضرات اپنا جرم ثابت ہونے کے بعد، ”جج صاحبہ “ کی طرف سے سزا سنائے جانے سے قبل، از خود ہی باعزت طریقے سے کان پکڑ لیتے ہیں۔ مگر چند شوہر تو جرم ثابت ہونے پر بھی ”سمارٹ“ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ”بیگم صاحبہ! آپ کی ویڈیو جھوٹ نہیں ہو سکتی لیکن در اصل میں ان آوازوں میں خراٹے نہیں مارتا بلکہ خواب میں خود کو
سائلنسر نکلی ہوئی موٹر سائیکل سمجھ کر ، اپنے منہ سے اس جیسی آوازیں نکالنے کی کوشش کرتا ہوں“۔

ایک خراٹوں سے متاثرہ خاتون تو اپنے شوہر کو خراٹوں کے علاج کے لئے ملک کے مشہور و معروف سرجن کے پاس بھی لے گئیں۔ ڈاکٹر اس کے شوہر کو آپریشن تھیٹر کے اندر لے گئے۔ مسلسل دو گھنٹے مریض کو آپریشن تھیٹر میں رکھنے کے بعد جب ڈاکٹر صاحب تھیٹر سے باہر نکلے تو انتہائی افسردگی سے بولے کہ ”محترمہ! ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم جو کچھ کر سکتے تھے، ہم نے کیا۔ ہم نے نہ صرف مریض کی اینجیو پلاسٹی کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ لیزر سرجری بھی کر ڈالی۔ ایک طرف ہم نے اس کے دل کا ایک والو تبدیل کیا تو دوسری طرف ایک سٹنٹ بھی ڈال دیا۔ لیکن افسوس کہ تمہارا شوہر اب بھی کسی برفانی سنڈے کی طرح ہی خراٹے مارتا ہے“۔

خواتین تو اپنے شوہروں کے خراٹوں کی اس قدر عادی ہو جاتی ہیں کہ اگر شوہروں کے خراٹوں کی آواز آنا بند ہو جائے تو اس کے ناک کے قریب اپنی انگلی لے جا کر چیک کرتی ہیں کہ اندر سے ”ہوا“ بھی برآمد ہو رہی ہے یا نہیں۔ دیگر الفاظ میں وہ یہ چیک کر رہی ہوتی ہیں کہ کیا موصوف ابھی سانس لے رہے ہیں یا پھر وراثت کی صورت میں میرے مالی لحاظ سے مضبوط ہونے کا وقت آگیا ہے؟۔

بہت سی بیگمات اپنے شوہروں کے خراٹوں کے حوالے سے مجبورا صبر کر لیتی ہیں ، مگر شک و شبہ ان کے دل سے مکمل طور پر کبھی بھی نہیں نکل پاتا۔ ایسی خواتین انتہائی غور سے اپنے میاں کے خراٹے سنتی ہیں کہ کہیں میاں صاحب اپنے خراٹوں کے اندر بھی ”کوڈ ورڈز“ میں ”کسی اور خاتون“ کا نام تو نہیں لے رہے؟۔

آج کل تو ضرورت رشتہ کے اشتہار بھی کچھ اس طرح سے آنے لگے ہیں کہ ہماری خوب صورت و خوب سیرت بچی کے لئے انتہائی نیک اور پرہیز گار لڑکے کا رشتہ درکار ہے۔ لڑکا اس قدر پرہیزگار ہو کہ خراٹے مارنے سے بھی پرہیز کرتا ہو۔ ایسے اشتہارات دینے والے شاید یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دو طرح کے مرد دنیا میں مشکل ہی ملتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے گندی اور بدبودار جرابیں زیب تن نہ کر رکھی ہوں اور دوسرے وہ جن کے خراٹوں کی گونج بہت زیادہ نہ ہو۔

عمومی طور پر ناؤ ہی ندیا میں ڈوبتی ہے لیکن صوفی غلام تبسم مرحوم نے اپنے کتابچہ ”جھولنے“ میں ”ناؤ میں ندیا ڈوب چلی“ کی خبر بھی سنائی تھی۔ ”ناؤ میں ندی ڈوبنے“ والے واقعے کی ہی طرح ، کبھی کبھار مرد حضرات بھی اپنی بیگم کے خراٹوں سے متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مگر ”دہشت گردی“ کے ایسے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔ بیگم کے خراٹوں کے حوالے سے شکوہ کرتے ہوئے ایسے ہی ایک ”میاں“ کی ترجمانی محترم سلمان گیلانی صاحب نے اپنے اشعار میں کچھ یوں کی ہے۔

کمرے میں تھی خراٹوں کی کُھڑ کُھڑ متواتر
ناسیں تیری بجتی رہیں پُھڑ پُھڑ متواتر
سوتے میں بھی تکتی رہی لڑنے کے تو سپنے
تھی نیند کی حالت میں بھی ُبڑ بُڑ متواتر
 

اپنا تبصرہ بھیجیں