جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اکثر قارئین کو یہ گمان گزرا ہوگا کہ میں بہت خوش ہوں۔ ان کا گمان اپنی جگہ درست ہے اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار بھی نہیں کہ2013 الیکشن کے بعد سے میری تنقید کا زیادہ حصہ مسلم لیگ نواز اور میاں صاحب پر ہی مشتمل ہے۔ درباری صحافت سے نفرت کرنے والے ایک قلم کار کی حکومت وقت کی خامیوں، خرابیوں، کوتاہیوں پرلکھنے اور ان کی نشاندہی کرنے کے علاوہ ذمہ داری بھی کیا ہو سکتی ہے؟ البتہ ایک بات ضرور ہو سکتی ہے ، وہ یہ کہ حکومت وقت اگر کچھ اچھا کرے تو اس سے انکار نہ کیا جائے اور اس کی اچھائی کا کریڈٹ ضرور دیا جائے۔ سو اگر کچھ اچھا ہوا تو اس کا کریڈٹ دیتے کبھی کنجوسی نہیں برتی۔
خیر جو اچھا بُرا لکھا وہ تاریخ کا حصہ بن کر درج ہوگیا۔ اب جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آ چکی ہے اور جیو اور جنگ گروپ سے وابستہ بیشتر سینئر تجزیہ نگار بھی میاں صاحب سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں تو میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں، میاں صاحب کی اس تاریخی ذلت پر جو جے آئی ٹی رپورٹ کی شکل میں سامنے آئی، اُس پر ہرگز خوش نہیں ہوں۔ اور جو سچ پوچھیں تو بہت افسردہ ہوں۔ میرے ا ن احساسات کی مثال ایسی ہے جیسے اکثر جواری کرکٹ میچوں میں پاکستان کی ہار پر اس لیے جوا لگاتے ہیں کہ اگر پاکستان جیت گیا تو اپنی ہار کا دکھ بھی جاتا رہے گا اور جیتا تو نہ صرف وہ شرط کے پیسے حاصل کر لیں گے بلکہ ان کا اندازہ بھی درست ثابت ہو جائے گا۔ ایسی صورتحال میں وہ جیت کے باوجود افسردہ اور دکھی ہی رہتے ہیں۔ شاید پیسہ اکثر دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام ہی رہتا ہے۔ بالکل ان جواریوں کی طرح میرے اندازے بھی درست ثابت ہوئے، مگر میں خوش نہیں ہوں۔
مجھے علم نہیں سپریم کورٹ کا فائنل فیصلہ کیا ہوگا؟ مگر رپورٹ کا جتنا حصہ ابھی تک منظر عام پر آیا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ محترم جج صاحبان یا تو اسے یکسر مسترد کر دیں گے یا پھر میاں صاحب نا اہل ہو جائیں گے۔ جو کچھ ابھی تک سامنے ہے اس میں درمیانی راستے کی گنجائش کم از کم مجھے نظر نہیں آتی۔ جہاں تک رپورٹ مسترد کرنے کا سوال ہے تو ایک بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی اپنی قائم کردہ ہے جس کی ساخت پر کیے گئے اعتراضات وہ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے، سو اب بچت کی امید بظاہر کہیں نظر نہیں آتی۔ میرے کل تک کے تمام اندازے، اندیشے اور وسوے درست ثابت ہوئے، مگر میں خوش نہیں ہوں، کیوں؟ کیونکہ جمہوریت کا منہ کالا ہوا۔ وہ وزیر اعظم جس کے پیچھے دھرنے کے دنوں میں ایک تحریک انصاف کو چھوڑ کر تمام معروف سیاسی قیادتیں دیوار بن کر کھڑی تھیں وہ جھوٹا ثابت ہو رہا ہے۔
لوگ اس کے لیے چور کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ شاید ازراہ مزاح میں نے بھی یہ لفظ متعدد بار استعمال کیا ہوگا۔ مگر آج جب یہ سچ ثابت ہوتے نظر آ رہا ہے تو عجب کیفیت ہے۔ بالکل اس جواری جیسی جو شرط تو جیت گیا مگر اس کا ملک ہار گیا۔ میاں نواز شریف کبھی بھی میرے لیڈر نہیں رہے، مگر وہ تین بار میرے ملک کے وزیر اعظم بنے، وہ میرے پنجاب کے مقبول ترین پنجابی لیڈر اور میرے لاہور کے لہوری ہیں۔ تو مجھے ان کی اس ذلت اور جگ ہنسائی پر دُکھ کیوں نہ ہو؟ البتہ ایک بات جو اس وقت بھی مجھے بار بار حوصلہ دیتی ہے وہ درباری صحافی ہیں جو آج بھی شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے بہتان تراشی سے کام لے رہے ہیں۔ جھوٹا ثابت ہونے کے باوجود دوسروں کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جو نہ مخالفین کو چھوڑ رہے ہیں، نہ جے آئی، ٹی نہ عدلیہ کو۔ مجھے نواز لیگ کے ان وزرا ء کو دیکھ کر بھی تسلی ملتی ہے کہ جو آج بھی میاں صاحب کو بچی کھچی اخلاقیات اور کچھ کریکٹر شو کرنے کی بجائے ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
انھیں دیکھ کر وہ موٹر مکینیک ذہن میں آتے ہیں جو محض اپنی سو پچاس کی دیہاڑی کی خاطر لاکھوں کی گاڑی کے جینئین پارٹس بدل کر ہمیشہ کے لیے خراب کر دیتے ہیں۔ یقیناً جو کچھ اس جے آئی ٹی کے بعد منظر عام پر آیا اس سے اکثریت واقف نہیں تھی اور بہت سی باتوں سے تو شاید شریف فیملی کے علاوہ کوئی بھی واقف نہیں تھا۔ مگر ان دیہاڑی داروں نے میاں صاحب سے نہ صرف اعلی مرتبے پر فائض ہو کر تاریخ میں بڑا بننے اور ملکی سیاست میں مزید مضبوط ہو کر ناقابل شکست ہونے کا موقع چھینا بلکہ شاید ان کی مستقبل کی سیاست بھی چھین لی۔ کیا ہوتا جو میاں صاحب سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے سے پہلے خود ہی استعفی دیتے اور کہتے کہ اب آؤ میدان میں اور میرے مقابلے میں الیکشن لڑ کر دکھاؤ؟ ممکن تھا ایسی کسی صورت میں سارا معاملہ وہیں دب کر رہ جاتا اور میاں صاحب برسوں پرانے گناہ کی دلدل میں دھنستے چلے جانے کی بجائے عزت دار طریقے سے باہر نکل آتے۔
زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ اگلی ایک آدھ باری ہاتھ سے نکل جاتی مگر یہ سب نہ ہوتا جو ہوا اور شاید اب مزید ہونے جا رہا ہے۔ اور فرض کریں اگر استعفیٰ دینے کے باوجود بھی میاں صاحب اس گھن چکر سے نہ نکل پاتے تو کم از کم پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے منصب کی اتنی توہین نہ ہوتی۔ بھٹو خاندان کے دو افراد نے تین بار وزارت عظمی لے کر پورے گھرانے کی زندگیوں کی قربانی دی۔ اگر یہ تین بار وزارت اعظمی لینے کے بعد ایک بار خود اپنی مرضی سے حکومت قربان کر دیتے تو کیا برا تھا۔ بہر حال میں جیت کر بھی دکھی ہوں، افسردہ ہوں، میرے اندازے، اندیشے، وسوسے سب سچ ثابت ہوئے، مگر میں دکھی ہوں اور دکھی دل کے ساتھ جیتے ہوئے افسردہ جواری کے جیسے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ، یہ وہی آزاد اور با کردار عدلیہ ہے جس کی بحالی کے لیے میاں صاحب پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کو تیار تھے اور جس نے ایک وقت میں ڈکٹیٹر جرنل پرویز مشرف کو نیچا دکھایا تھا۔ کون سی اسٹیبلشمنٹ، کیسی سازش؟ چوری جی بھر کر پکڑی گئی ہے، چنانچہ دیہاڑی دار درباری صحافی اور وزراء فالتو کا رونا بند کر کے اپنے لیڈر سے شرافت کے ساتھ استعفیٰ کا مطالبہ کریں۔ ورنہ اب کی بار اگر فوج آئی تو اس کے ذمہ دار صرف یہ نام نہاد اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگ ہوں گے!
تعارف : عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مکالمہ ڈاٹ کام۔