288

خالو جان۔

گزشتہ شب رات ابھی زیادہ گہری نہیں ہوئی تھی کہ برطانیہ میں مقیم بہن کی واٹس ایپ پر کال آئی لیکن بات نہیں ہو سکی، فوراً ہی موبائل کی رِنگ ٹون بجی لیکن اُس پر بھی بات نہیں ہو سکی، دل میں وسوسے نے جنم لیا، ساتھ ہی لینڈلائن فون کی گھنٹی بجی۔ والد صاحب نے فون اٹھایا تو وسوسہ حقیقت میں بدل گیا، بہن نے خبر دی کہ برطانیہ میں ہی مقیم خالو کا انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

خبر تو غمناک تھی ہی، افسردہ اور نمناک کر گئی لیکن ساتھ ہی یادوں کی ایک پٹاری کھول گئی۔ 2013 کی بات ہے جب میں پڑھنے کی غرض سے برطانیہ گیا تو اپنے کزن کے ہمراہ ہیتھرو سے سیدھا خالو کے گھر ہی پہنچا۔ خالو جب بھی پاکستان آتے تھے تو اُن سے مزیدار گفتگو رہتی لیکن انہٰیں قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع برطانیہ میں رہ کر ہی ملا۔ یونیورسٹی چونکہ اُن کے گھر سے قریب تھی لہٰذا میری رائے جانے بغیر ہی اُنہوں نے فیصلہ سنا دیا کہ تمہیں کہیں باہر رہنے کی ضرورت نہیں، تم یہیں ہمارے ساتھ رہو گے۔ جب میں برطانیہ جا رہا تھا تو بہت سے لوگوں نے خبردار کیا کہ وہاں پر مقیم دوستوں اور رشتے داروں پر نہ رہنا، وہاں تو ہر کسی کو اپنی ہی پڑی ہوتی ہے، وہاں جاؤ گے تو تمہیں پتہ لگے گا جب کوئی تم سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرے گا۔ یہ پہلا تاثر ہی پہلی ہی رات میرے خالو نے زائل کر دیا۔ اس کے بعد میں تقریباً پونے دو سال وہاں رہا اور انتہائی خوشگوار یادیں لے کر پاکستان واپس آیا۔ اِس پورے عرصے میں انہوں نے پردیس میں مجھے دیس کا ماحول مہیا کیے رکھا اور بقول میری والدہ کے مجھے ہتھیلی کا چھالہ بنا ئے رکھا۔ بہن کو برطانیہ منتقل ہوئے ابھی سات آٹھ ماہ ہی ہوئے ہیں، اس عرصے میں جب بھی وہ اُن سے ملنے گئی تو اُسے کہتے کہ آتی رہا کرو، آتی رہو گی تو میں ٹھیک ہو جاؤں گا، لیکن وہ ٹھیک کہاں ہوتے، دن بدن حالت پہلے سے خراب ہوتی گئی اور گزشتہ رات قدرت اپنی چال چل گئی۔

خالو ریٹائرڈ لائف گزار رہے تھے، گپ شپ کے شوقین آدمی تھے، اُن کے ساتھ بیٹھ کر انسان کبھی بور نہیں ہوا۔ لیکن چونکہ عمررسیدہ بھی تھے اور صحت بھی زیادہ ٹھیک نہیں رہتی تھی اور کچھ یادداشت میں بھی فرق آ چکا تھا تو ایک ہی بات کئی دفعہ کرتے تھے۔ میرے پونے دو سال کے قیام کے دوران انہوں نے مجھے اپنی پاکستان سے براستہ افغانستان اور پھر وہاں سے براستہ سڑک کئی ممالک سے ہوتے ہوئے ڈنمارک پہنچنے (قانونی طور پر) ، وہاں پہنچ کر جاب کے حصول اور پھر وہاں سے برطانیہ کے ویزے کے حصول کی کہانی جو برطانیہ کی رائل میل کی تقریباً چھ ماہ جاری رہنے والی تاریخی ہڑتال کے نتیجے میں انہیں بہت تاخیر سے موصول ہوا اور پھر کیسے وہ برطانیہ داخل ہونے کی مدت میں خاتمے سے محض ایک دن پہلے وہاں پہنچے اور پھر وہاں مختلف کام کرتے ہوئے اُس جاب کی کہانی جس سے وہ بالآخر ریٹائر ہوئے، یہ کہانی مجھے انہوں نے اتنی مرتبہ سنائی کہ مجھے ازبر ہوگئی ، یہاں تک کہ جب مجھے وہ یہ کہانی سناتے تو مجھے معلوم ہوتا کہ اب اگلا لفظ وہ کیا بولیں گے، لیکن بار بار کہانی سنتے کبھی اکتاہٹ نہیں ہوئی۔ اُن کی کھنکتی ہوئی آواز اور بیماری کے باوجود توانا لہجے نے کبھی اکتانے ہی نہیں دیا بلکہ ہر دفعہ اُس کہانی نے پہلے سے زیادہ ہی مزا دیا۔

چالیس پینتالیس سال سے برطانیہ میں مقیم تھے لیکن آج تک کالی چائے یا سیپریٹ ٹی کی خود کو عادت نہ ڈال سکے، کڑھی ہوئی چائے پیتے اور ہمیشہ خود بنا کر پیتے کہ کسی اور کو ویسی چائے بنانی نہیں آتی۔ ایک دفعہ میں نے اُن کو چائے بنا کر دی تو کہنے لگے کہ او توں تے بڑی ودھیا چاء بنانا ایں (تم تو بڑی زبردست چائے بناتے ہو)۔ اُس دن کے بعد جب میں گھر ہوتا تو شام کی چائے مجھ سے ہی بنواتے اور سب کو بتاتے کہ یہ بڑی زبردست چائے بناتا ہے۔ میں نے یونیورسٹی جانا تھا تو پہلے دن خود مجھے ٹاؤن کے مرکزی بس سٹاپ تک نہ صرف چھوڑ کے آئے بلکہ جب تک بس آئی نہیں اور میں بیٹھ نہیں گیا تب تک سٹاپ پر ہی کھڑے رہے، مجھے پیسے بھی دیے، میں نے کہا کہ خالو! میرے پاس پیسے ہیں تو کہنے لگے مجھے پتہ ہے تمہارے پاس پیسے ہیں تبھی یہاں پڑھنے آئے ہو لیکن آج پہلے دن یونیورسٹی جا رہے ہو، چپ کر کے یہ پیسے رکھ لو۔ مجھے بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کرتے تھے۔

بینک میں، میں نے اکاؤنٹ کھلوانا تھا ، میں نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں ، میں چلا جاؤں گا لیکن بینک بھی میرے ساتھ گئے اور جب تک میرا کام ہو نہیں گیا ، انتظارگاہ میں بیٹھے رہے۔ اپنے ملنے جلنے والوں سے بڑے فخر سے بتاتے کہ یہ ہمارا بھانجا ہے اور پاکستان سے یہاں پڑھنے آیا ہے۔گروسری کے لیے جاتے تو مجھے ساتھ لے جاتے، ظہر کی نماز کے لیے خود ڈرائیو کر کے مسجد جاتے اور مجھے بھی ساتھ لے جاتے اور راستے میں خوب گپ لگاتے، باقی نمازیں گھر پر ہی ادا کرتے۔ فروٹ لاتے اور زبردستی مجھے کھلاتے۔ کھانے کی میز پر بھی ہر کھانے کی اچھی چیز میرے سامنے کر دیتے۔ اُنہیں جب پتہ لگا کہ صبح ناشتے میں مَیں کیلے کا ملک شیک پیتا ہوں تو فروٹ باسکٹ میں کیلے ختم ہونے سے پہلے ہی دوبارہ آ جاتے۔ ایک دن میں نے یوٹیوب پہ انور مسعود کی مزاحیہ شاعری لگا کر انہیں سنائی تو بہت محظوظ ہوئے اور پھر اکثر مجھ سے یوٹیوب پہ انور مسعود کی شاعری لگواتے اور سنتے۔

صبح جب سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آتے تو ضرور کوئی نہ کوئی شرارت کرتے ہوئے، ہنستے ہنساتے ہوئے نیچے اترتے۔ ملکی سیاست اور بین الاقوامی کسی معاملے پر میں کوئی بات کرتا تو بڑی دلچسپی سے سنتے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے۔ ویک اینڈ یا ہفتے کے دوران بھی کسی دن نواسے نواسیاں یا پوتے پوتیاں آتے تو کھل اٹھتے اور بچوں کے ساتھ خوب شرارتیں کرتے۔ بچے بھی اپنے نانا دادا سے لپٹ لپٹ جاتے۔ شکل صورت سے بالکل کوئی گورا انگریز ہی دکھائی دیتے، کسی کو پتہ نہ ہوتا کہ وہ پاکستانی یا ایشیائی ہیں تو انہیں گورا ہی سمجھتا رہتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت زیادہ خوش ہوتے، میں نے خالہ کو ایک خاصا گرم اور بھاری سویٹر تحفے میں دیا تو ہر ایک کو نکال نکال کر دکھاتے کہ کتنا ودھیا سویٹر اپنی خالہ کے لیے لایا ہے۔ میچ بہت شوق سے دیکھتے تھے اور پاکستان کا میچ ہوتا تو اُن کی دلچسپی دیدنی ہوتی، ہار جاتے تو کہتے “لِدھ (گھوڑے گدھے کا فضلہ) کر دتی نے”، مجھے بڑی ہنسی آتی۔

درمیانی عمر میں ایک بار شدید بیمارہوئے بلکہ ایک طرح سے اللہ نے انہیں دوسری زندگی عطا کی۔ تب سے ہی یادداشت پر کچھ اثر تھا جس کی وجہ سے نماز پڑھتے تو ایک تو اونچی آواز میں پڑھتے اور دوسرا تھوڑا اپنے طریقے سے جیسا انہیں یاد رہ گیا ہوا تھا اس طریقے سے اور بچوں کی طرح پڑھتے، دعا بھی اس طرح مانگتے کہ جیسے کوئی بچہ اپنے بڑے سے بہت مان سے کچھ مانگ رہا ہو۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم لوگوں کی نمازوں اور عبادتوں پر انہیں ٹوکتے ہیں کہ ایسے نہیں ایسے پڑھو لیکن نجانے اُن کا یہ معصوم انداز ربِ کریم کو کتنا پسند ہو گا۔ روایت ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں ایک شخص تھا جو کہتا تھا اے اللہ اگر تو میرے پاس ہوتا تو میں تیری کنگھی کرتا، تجھے اپنے ساتھ کِھلاتا اور سلاتا، حضرت موسیٰ نے جب یہ سنا تو اسے ڈانٹا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ٹوکا کہ میرا بندہ مجھ سے محبت کا اظہار کر رہا تھا تم نے اسے کیوں ڈانٹا۔

یادوں کا ایک سلسلہ ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے لیکن کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ ایک بہت خوبصورت زندگی انہوں نے گزاری ، برطانیہ میں اُن کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا اور ہر کسی سے اُن کی اچھائی اور تعریف ہی سُنی تھی جو یقیناً اُن کی خوش اخلاقی کی دلیل تھا۔ اور روزِ حشر خوش اخلاقی یقیناً میزان میں بہت بھاری ہوگی۔ آخری دو مہینے تقریباً بستر پر ہی گزارے، دعا ہے کہ اللہ کریم نے اِس بیماری کو اُن کی نجات کا ذریعہ بنا دیا ہو اور وہ آخرت کی منزلیں آسانی سے طے کر گزریں اور اللہ کریم اُن کو جنت کے اعلیٰ باغوں میں سے باغ عطا کریں۔ (آمین)!(مکالمہ ڈاٹ کام)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں