ایک طبقہ چاند پر علماء کی لڑائی سے بیزار ہے اور دوسرا وہ جن کے چاند بگڑ کر سورج ہو چکے ہیں اور چاندنی کی بجائے تپش دیتے ہیں خواہ درمیان میں چھ بچوں کی چارپائیوں کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو۔
عام کنوارگان ملت کسی ایک چاند کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن شدید کنوارے جنہیں اپنی کنوارگی کا احساس شدت کیساتھ ہونے لگے وہ پوری کہکشاں کی تلاش میں ہوتے ہیں جبکہ شادی شدگان کو اس بات پر حسد رہتا ہے کہ مریخ کے دو چاند کیوں ہیں اور ہمارا صرف ایک، وہ بھی پرانا ہو کر چاندنی سے زیادہ تابکاری مارنے لگا ہے۔
چاند کے ساتھ رومانویت رکھنے والے بعض ترسے ہوئے عناصر فوجیوں سے غیر یقینی لہجے میں استفسار کرتے ہیں کہ چاند ماری واقعی کسی فرضی دشمن پر گولیاں چلانے کا نام ہے یا اس میں کوئی رومانس بھی شامل ہے؟
سائینسدان چاند کو ہمیشہ رومانویت کے بغیر دیکھتے ہیں، ان کی نظریں صرف چاند کی پیمائشوں، زاویوں اور راہگزر کے حساب کتاب ڈیٹابیس میں محفوظ کرنے تک محدود رہتی ہیں جبکہ چاند سے محبت رکھنے والے ایک نظر دیکھتے ہی اس کی ساری پیمائشیں ازبر کر لیتے ہیں پھر ان کا ڈیٹا بیس تنہائی کے عالم میں انہیں چاند کی مختلف شبیہیں بنا بنا کر دکھاتا رہتا ہے ایسے عالم میں ان کی محویت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ﺧﻼﺋﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ کے ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻧﺎﺳﺎ ﻧﮯ ﺍﯾﻦ ﺟﯽ ﺳﯽ 1566 ﻧﺎﻣﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ 40 ﮐﺮﻭﮌ ﻧﻮﺭﯼ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻓﺎصلے ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ، ﻧﺎﺳﺎ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ اس ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺧﻼﺋﯽ ﺩﻭﺭﺑﯿﻦ ﮨﺒﻞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺹ ﭼﯿﺰ ﯾﺎ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ، ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ یہ بھی ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﮐﮩﮑﺸﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﮐﺎﻓﯽ ﺭﻭﺷﻦ، ﻣﺘﺤﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺑﮑﺎﺭﯼ ﻣﺎﺩﮮ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﻮﺗﮯ ہیں۔
یہ سائنسدان ہمارے کنوارے لوگوں سے بھی سینکڑوں نوری سال پیچھے لگتے ہیں، انہوں نے دور بین لگا کے ایک کہکشاں دریافت کی وہ بھی کروڑوں سال دُور حالانکہ کہکشاں کے پیچھے انسان اس وقت سے گھوم رہا ہے جب کہکشاں نام رکھنے کا رواج ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
کنواروں کی دریافت شدہ کہکشاں اسی شہر میں ہوتی ہے جس میں وہ خود رہتے ہیں اور سویرے کالج آتی جاتی کو جب چاہے سادہ آنکھ سے بھی دیکھ لیتے ہیں، ناسا والے ہبل سے فوٹو لیتے ہیں لیکن یہ جب چاہیں موبائل فون سے اس کی کئی تصویریں کھینچ لیتے ہیں۔
ﺍُﺱ ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ جبکہ کنواروں کی کہکشاں کے سوٹ پر ستارے ترتیب سے ٹانک رکھے ہوتے ہیں اور دوپٹے والے پھولوں کے تو کیا ہی کہنے۔
سائنسدانوں کی کہکشاں کو ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺹ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ جبکہ کنواروں والی ان کے خیال میں ایک دم ہرنی جیسی ہوتی ہے۔
ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ان ﮐﯽ دریافت شدہ ﮐﮩﮑﺸﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﮐﺎﻓﯽ ﺭﻭﺷﻦ، ﻣﺘﺤﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ یہاں کنوارے ان سے متفق ہو جاتے ہیں۔
اُن کی کہکشاں ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺑﮑﺎﺭﯼ ﻣﺎﺩﮮ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﻮﺗﮯ ہیں تو اِن کی کہکشاں سے پہلے پہل نور کی کرنیں خارج ہوتی ہیں لیکن شادی کے سال دو سال بعد یہی نور تابکاری میں بدل جاتا ہے، ابتداء میں یہ تابکاری نظر نہیں آتی لیکن جب حادثاتی طور پہ کہکشاں پر ایک بار گھریلو جھگڑے کے الیکٹرونز کی فائرنگ ہو جائے تو پھر وہ عمل انشقاق شروع ہوتا ہے کہ عمر بھر نہیں رکتا، ایسے عالم میں کہکشاں کہکشاں نہیں رہتی بلکہ وہ پتھروں کا مجموعہ لگتی ہے جو دور ہوں تو خوب چمکتے ہیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Arabic UI Text’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’}
span.s3 {font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’}
span.s4 {font: 12.0px ‘.Arabic UI Text’}