صحافی اور ادیب معاشرہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور وہ یہ کام بطریق احسن تب ہی کرسکتے جب خود اعلی کردار اور اوصاف کے حامل ہوں۔
اہل قلم جب تک خوف، لالچ ، شہرت اور مفادات سے بالاتر ہوکر کام نہیں کریں گے ان کی تحریر پر اثر نہیں ہوگی۔ اگر کسی کا قلم خوشامند، حسد، بخل اور غلو کا شکار ہو جائے تو وہ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے بجائے معاشرتی مسائل اور گمراہی کا باعث ہوتا ہے۔ صحافت میں ذاتی پسند اور ناپسند اور نظریات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ذمہ داری سے قلم اٹھانا جانا چاہیے۔ پاکستان اور یورپ میں صورت حال مختلف ہونے کی وجہ سے صحافیوں اور ادیبوں کو مختلف حالات اور مسائل کا سامنا ہے۔یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی صحافی اور ادیب ایک طویل مدت سے اپنے قلم سے قومی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان کی اس کوشش سے ان ممالک میں اردو زبان اور مشرقی ثقافت کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔
یورپ میں مقیم اردو لکھاریوں کے آپس میں رابطہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی تھی جس کا بیڑا بیلجئیم میں مقیم اہل قلم نے اٹھایا اور یورپ میں مقیم پاکستانی صحافیوں اور مصنفین کی ایک روزہ کانفرس پاکستان پریس کلب بیکجئیم نے یورپی پریس سینٹر برسلز میں منعقد کی ۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک پہلے کوشش تھی جو قابل تحسین ہے اگرچہ یہ قدرے عجلت میں کی گئی اور یورپ میں مقیم کئی صحافی اور مصنف اس میں شرکت نہ کرسکے مگر پھر بھی اسے ایک اچھی ابتداء کہا جاسکتا ہے۔ کانفرس میں میزبان ملک بیلجیئم کے علاوہ برطانیہ ،سویڈن، ناروے، نیدر لینڈز، جرمنی، فرانس اور کینیڈاسے ادیب، شاعر اور صحافی شریک ہوئے ۔پاکستان پریس کلب بلجیم کے صدر عمران ثاقب چوہدری ، جنرل سیکریٹری محمد ندیم بٹ، خالد حمید فاروقی اور دیگر مقامی صحافی یورپ کے مختلف ممالک سے آنے والے وفود کے لئے چشم براہ تھے۔ کانفرس میں یورپ میں مقیم پاکستانی صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے ایک نشست ہوئی جبکہ ایک اور نشست کانفرس میں شریک مصنفین کی کتابوں کے تعارف اور پذیرائی پر مشتمل تھی۔ یورپ میں اردو زبان کے فروغ میں ادیبوں اور صحافیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ کچھ لوگ مفادات اور شہرت کے حصول کے لئے صحافی بنے بیٹھے ہیں جس سے اس شعبہ کی بد نامی ہورہی ہے۔ اخبارات اور میڈیا ہاؤس کے مالکان کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اس طرح کے عناصر کی صحافت میں دخل اندازی کو روکنا چاہیے۔ اس حوالے سے برطانیہ میں مقیم صحافی اور ادیب احمد نظامی نے کہا کہ پہلے صحافت کو لوگ عبادت سمجھ کر اختیار کرتے تھے لیکن اب یہ تجارت بن گیا ہے ۔ شرکاء نے اس پر اتفاق کیا کہ یورپ میں اردو صحافت اور ادب کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کی تربیت کے لئے تربیتی ورکشاپ منعقد کی جانی چاہیے۔ یورپ میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل کا اردو زبان کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنے کی ضرورت کا بھی اہمیت دی گئی اور اہل قلم نے عزم کا ظہار کیا کہ وہ یورپ میں اردو ادب اور صحافت کے فروغ کے لئے وہ اپنا کرادر ادا کرتے رہیں گے۔
اہل قلم جب تک خوف، لالچ ، شہرت اور مفادات سے بالاتر ہوکر کام نہیں کریں گے ان کی تحریر پر اثر نہیں ہوگی۔ اگر کسی کا قلم خوشامند، حسد، بخل اور غلو کا شکار ہو جائے تو وہ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے بجائے معاشرتی مسائل اور گمراہی کا باعث ہوتا ہے۔ صحافت میں ذاتی پسند اور ناپسند اور نظریات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ذمہ داری سے قلم اٹھانا جانا چاہیے۔ پاکستان اور یورپ میں صورت حال مختلف ہونے کی وجہ سے صحافیوں اور ادیبوں کو مختلف حالات اور مسائل کا سامنا ہے۔یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی صحافی اور ادیب ایک طویل مدت سے اپنے قلم سے قومی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان کی اس کوشش سے ان ممالک میں اردو زبان اور مشرقی ثقافت کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔
یورپ میں مقیم اردو لکھاریوں کے آپس میں رابطہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی تھی جس کا بیڑا بیلجئیم میں مقیم اہل قلم نے اٹھایا اور یورپ میں مقیم پاکستانی صحافیوں اور مصنفین کی ایک روزہ کانفرس پاکستان پریس کلب بیکجئیم نے یورپی پریس سینٹر برسلز میں منعقد کی ۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک پہلے کوشش تھی جو قابل تحسین ہے اگرچہ یہ قدرے عجلت میں کی گئی اور یورپ میں مقیم کئی صحافی اور مصنف اس میں شرکت نہ کرسکے مگر پھر بھی اسے ایک اچھی ابتداء کہا جاسکتا ہے۔ کانفرس میں میزبان ملک بیلجیئم کے علاوہ برطانیہ ،سویڈن، ناروے، نیدر لینڈز، جرمنی، فرانس اور کینیڈاسے ادیب، شاعر اور صحافی شریک ہوئے ۔پاکستان پریس کلب بلجیم کے صدر عمران ثاقب چوہدری ، جنرل سیکریٹری محمد ندیم بٹ، خالد حمید فاروقی اور دیگر مقامی صحافی یورپ کے مختلف ممالک سے آنے والے وفود کے لئے چشم براہ تھے۔ کانفرس میں یورپ میں مقیم پاکستانی صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے ایک نشست ہوئی جبکہ ایک اور نشست کانفرس میں شریک مصنفین کی کتابوں کے تعارف اور پذیرائی پر مشتمل تھی۔ یورپ میں اردو زبان کے فروغ میں ادیبوں اور صحافیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ کچھ لوگ مفادات اور شہرت کے حصول کے لئے صحافی بنے بیٹھے ہیں جس سے اس شعبہ کی بد نامی ہورہی ہے۔ اخبارات اور میڈیا ہاؤس کے مالکان کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اس طرح کے عناصر کی صحافت میں دخل اندازی کو روکنا چاہیے۔ اس حوالے سے برطانیہ میں مقیم صحافی اور ادیب احمد نظامی نے کہا کہ پہلے صحافت کو لوگ عبادت سمجھ کر اختیار کرتے تھے لیکن اب یہ تجارت بن گیا ہے ۔ شرکاء نے اس پر اتفاق کیا کہ یورپ میں اردو صحافت اور ادب کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کی تربیت کے لئے تربیتی ورکشاپ منعقد کی جانی چاہیے۔ یورپ میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل کا اردو زبان کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنے کی ضرورت کا بھی اہمیت دی گئی اور اہل قلم نے عزم کا ظہار کیا کہ وہ یورپ میں اردو ادب اور صحافت کے فروغ کے لئے وہ اپنا کرادر ادا کرتے رہیں گے۔
کانفرس شریک مصنفین کی کتابیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں ۔ مانچسٹر سے نغمانہ کنول نے اپنے بارہ شعری مجموعوں کی بابت بتایا۔ مانچسٹر سے ہی سید احمد نظامی نے کالج کی لڑکی اور رفاقت کا سفر ، سویڈن سے راقم( عارف محمود کسانہ) نے افکار تازہ اور سبق آموز کہانیاں، نیدرلینڈز سے خالد فاروق نے سیاہ آئینے، فرانس سے ثمن شاہ نے تم سے تمہی تک اور ہمیشہ تم کو چاہیں گے کا تعارف پیش کیا۔شیراز راج نے اپنے مرتب کردہ معلوماتی کیلنڈر سے آگاہ کیا جس میں پاکستان کی معروف خواتین کی جدوجہد کی عکاسی کی گئی تھی۔ کانفرس میں جرمنی سے سب سے زیادہ مصنفین شریک تھے جن میں سرور غزالی نے دوسری ہجرت، بکھرے پتے اور بھیگے پل، عشرت معین سیما نے گرداب اور کنارے، گامزن، طاہر عدیم نے اپنی کتابوں بام بقا، بوسہ،تیرے نین کنول ،تم کبھی بے وفا نہ کہنا اور طاہرہ رباب نے بھی اپنی کتابوں کا تعارف پیش کیا۔ جرمنی سے ہی سید اقبال حیدر نے اپنے چالیس سال کے طویل صحافتی اور ادبی سفر سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ ان کی کتابیں الہام، بے آب زمینیں، امید سحر، قلم اور کالم، کوثر و سلبیل، مرے دل کے آس پاس، شبستان ولا، علم و ذوالفقار اور مجلہ گفتگو نمائش کے لئے رکھی گئیں تھیں۔ علی جعفر زیدی کی کتاب باہر جنگل اندر آگ کا تعارف مقامی صحافی راؤ مستجاب احمد نے کرایا ۔ راقم نے اس نشست میں یورپ میں مقیم مصنفین کو مشورہ دیا کہ پاکستان سے کتابیں شائع کروانے میں بھاری اخراجات اور دیگرمشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے لے لئے وہاں سے کتابیں شائع کروانے کی بجائے ایمزون پر مفت کتابیں شائع کریں بلکہ اپنی فروخت ہونے والی کتابوں کا معاوضہ بھی باآسانی حاصل کریں۔شرکاء نے اس تجویز کو بہت پسند کیا ۔ کانفرس میں اس پر اتفاق کیا گیا کہ یورپ کی سطح پر پاکستانی مصنفین اور صحافیوں کی ایک تنظیم قائم کی جائے گی جس سے باہمی رابطہ میں اضافہ کے ساتھ اردو ادب و صحافت کے فروغ میں بھی اضافہ ہوگا۔کانفرس میں اس پر اتفاق رائے تھا کہ اہل قلم کو انتہا پسندی کے خلاف اپنا کرادر ادا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ انتہا پسندی معاشرہ کے سکون کے لئے زہر قاتل ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ہو یا سیکولر انتہا پسندی، مذہبی جبر ہو یا لبرل فاشزم دونوں امن کے دشمن ہیں ۔ یورپ میں مقیم اہل قلم پاکستان سے محبت اور اس کے ریاستی اداروں کا احترام اور اسلامی نظریہ حیات کو اپنے پیش نظر رکھتے ہیں وہ کشمیری عوام کے حق خود آرادیت کی حمایت او ر ہر قسم کی حقوق انسانی کی آواز بلند کرنا بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ا س سے بخوبی آگاہ ہیں۔توقع کی جاسکتی ہے کہ برسلز میں ہونے والی اہل قلم کی کانفرس یورپ میں اردو ادب اور صحافت کے ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔