منیبہ مزاری خواتین کے لیے اقوام متحدہ کی پہلی پاکستانی خیرسگالی سفیر ، وہیل چیئرپر موجودماڈل ، ایک مصور ، موٹیویشنل سپیکر اورسماجی کارکن ہیں،اکیس سال کی عمرمیں ان کی گاڑی ایک کھائی میں جاگری تھی جس کے نتیجے میں وہ معذور ہوگئیں تاکہ آگے بڑھنے کے حوصلے پست نہ ہوسکے ۔
منیبہ مزاری نے بتایاکہ 18سال کی عمر میں میری شادی ہوگئی،میں ایک روایتی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس لیے والدین کی خوشی کیلئے ہاں میں ہاں ملائی لیکن یہ کوئی خوشی والی شادی نہیں تھی، شادی کے دوسال بعد ہی یعنی تقریباً 9سال قبل میں گاڑی میں سفر کررہی تھی، میرا شوہر ڈرائیونگ کرتے سوگیا اور گاڑی کھائی میں جاگر،وہ کسی طریقے سے گاڑی سے باہر چھلانگ لگا کر نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور بچ گیاجس پر مجھے خوشی بھی ہے لیکن میں گاڑی کے اندر ہی رہی، کھائی میں سے نکالنے کے بعد مجھے ایک پوٹھوہار جیپ میں ڈال دیا گیا،کیونکہ وہاں بلوچستان میں کوئی ایمبولینس نہیں تھی ،مجھے شدید چوٹیں آئیں، دایاں بازو، کندھے اور گردن کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ میری ٹانگیں کہاں ہیں کیونکہ میں محسوس نہیں کررہی تھیں تو انہوں نے بتایاکہ یہیں ہیں،اڑھائی ماہ ہسپتال میں بہت برے گزرے، لیکن ہسپتال میں ایک دن ڈاکٹروں نے بتایاکہ سنا ہے کہ آپ مصور بننا چاہتی تھیں لیکن آپ کے لیے بری خبرہے کہ آدھی معذور ہوچکی ہیں کیونکہ مجھے کچھ محسوس ہی نہیں ہوتاتھا، آپ کبھی پینٹ نہیں کرسکیں گی اور ایک گھریلو خاتون بن کر رہ سکیں گی بلکہ ریڑھ کی ہڈی بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے شایدآپ چل بھی نہ سکیں اور نہ ہی آئندہ کوئی بچہ جنم دے سکیں گی، میں شدید نفسیاتی اور جسمانی درد میں مبتلاءتھی ، لیکن چلائی نہیں اور سوالات شروع کردیئے کہ میں پھر زندہ کیوں ہوں؟
منیبہ نے بتایاکہ ایک دن میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مصنوعی ہاتھ لگاہے اور سفید دیواروں کو دیکھتے جارہی تھی، میں پینٹ کرنا چاہتی تھی اور پہلی پینٹنگ میری بستر مرگ پر ہی تھی۔ میں نے پینٹنگ بنائی تو لوگ دیکھنے کے لیے آئے اور اپنے اپنے الفاظ میں اس کی تعریف کرتے رہے، میں دل کے جذبات کو بھی پینٹنگ میں بیان کرسکتی ہوںاور پھر اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے زندہ رہنا ہے ۔ میں نے اپنے اندر پائے جانیوالی خدشات کی ایک فہرست بنائی اور ان پر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑا خدشہ طلاق کا تھا لیکن جس دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ دوسری شادی کررہے ہیں تو میں نے انہیں ایک میسج کیا اور کہاکہ ”میں آپ سے بہت خوش ہوں اور نیک خواہشات ہیں، اسے بھی یہ معلوم ہے کہ میں آج بھی اس کیلئے دعا کرتی ہوں“۔دوسری بات یہ تھی کہ میں دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی لیکن دنیا میں ایسے بہت سے بچے ہیں جو پناہ کے متلاشی ہیںاور میں نے ایسا ہی کیا اور ایک بچے کو اپنا لیا۔
منیبہ نے کہاکہ اتناحوصلہ مجھے کہاں سے ملا اس بارے میں تومعلوم نہیں لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ جب آپ کچھ کھودیتے ہوتوچلا بھی نہیں سکتے ۔ انہوں نے بتایاکہ ایک خاتون نے میری والدہ کو کہاایک شوہر کبھی بھی وہیل چیئرپر موجود اہلیہ کو نہیں رکھے گا، غریب لڑکی ہے ،ا سے طلاق لے لینی چاہیے لیکن میں ایسا نہیں سن سکتی تھی ، میری والدہ نے انہیں کہاکہ اگراللہ تعالیٰ نے میری بیٹی کی ٹانگین لے لی ہیں تو اس میں ضرورکوئی بہتری ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ٹانگوں کے بغیر ہی کچھ اہم کام کرواناچاہتے ہیں اور یہ میرے لیے نہایت مشکل وقت تھا۔
ان کاکہناتھا کہ میں پہلی مرتبہ جب وہیل چیئرپر بیٹھی تو بہت خوش تھی ،اگر میں ٹانگوں سے ہاتھ دھوبیٹھی ہوںتو اب دو وہیل ہیں، سب سے پہلے میں نے لپسٹک اور اپنے آپ کو شیشے میں دیکھا اور میں نے اپنے آپ کو ایک ہیرے کے طورپرمحسوس کیاتو پھر لپسٹک صاف کردی، ایک مرتبہ لگادی کیونکہ میں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی ہوں ، اپنے آپ کو قبول کرنا ہے ، اس حادثے کے بعد میں بہت بہادر ہوگئی، ٹانگوں سے ہاتھ دھونے اور اتنی منفی باتیں سننے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں، میں دنیا کو یہ دکھاناچاہتی ہوں کہ ایک معذور شخص بھی خوش رہ سکتاہے اور اپنے خوابوں کی تعمیل کرسکتاہے ۔