آزاد کشمیر کی تحصیل دھیرکوٹ کے گاؤں نیلا بٹ میں پیدا ہونے والے عملی دنیا میں اور بلا سود بینکاری پر ایک اتھارٹی ، جن کے کام پر قاری حنیف ڈار سمیت متعدد اہل علم و دانش لکھ چکے ہیں ، میری مراد انور عباسی صاحب ہیں۔
ہمارے بہت سارے لوگ انور عباسی صاحب کا نام جب کسی خورشید ندیم صاحب یا ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب یا قاری حنیف ڈار صاحب سے سنتے ہیں اور ان کی کاوش ، سود پر کتاب ” بینک انٹرسٹ ، منافع یا ربا ”
پر اہل علم و دانش کے تبصرے اور تذکرہ دیکھتے ہیں تو انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ ایسا ہیرا اور اتنا بڑا اہل علم و دانش ہمارے ہاں بھی پیدا ہو سکتا ہے ۔ اس لئیے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم شاید بریلی شریف ، سہارنپور ، دیوبند یا کراچی لاہور اور دھلی و پشاور میں ہی پیدا ہو سکتے ہیں یا پھر عرب اور مغرب میں حالانکہ علم و دانش کسی کی میراث نہیں ہے اور یہ ایک خاص نعمت ہے جو خالق کائنات کہیں کے رہنے والے اور کسی کو بھی عطا کر سکتا ہے۔
کچھ چیزیں اور شخصیات اتنی اہم اور علمی نہیں ہوتی ہیں ، لیکن وقت انہیں بڑا بنا دیتا ہے اور انہیں تقدیس کا لبادہ اوڑھا دیتا ہے ، ورنہ کل تک کے بڑے بڑے جید علماء کرام اور بڑے بڑے عربی دان کل تک اللہ کے اس کو چیلنج کو شد و مد سے اپنے لفظوں میں ہی دہراتے تھے کہ اللہ ہی ہے جو یہ جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ،
لیکن آج جدید سائنس اور الٹرا ساؤنڈ نے بتا دیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔
اب ان بزرگوں، اکابرین اور بڑوں کی بولتی بند ہو گئی ہے۔ اس طرح اب وہ استاذ محترم جاوید احمد غامدی کے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ پیدا ہونے والا کیا ہو گا یہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ بادشاہ ہو گا یا گدا مصلح یا درندہ۔
اب غامدی صاحب سے پہلے کتنے عربی دان اور جید علماء گزرے ہیں جو اس بات کو دہراتے رہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، سے مراد مذکر یا مؤنث ہے ، الٹرا ساؤنڈ کے بعد ملحدین کے سوال و وار اور تشکیک کا جواب اب غامدی صاحب ہی دے رہے ہیں ، اسی طرح انور عباسی صاحب کو اللہ نے بڑی فراست سے نوازا ہے اور وہ سود اور بینکاری پر ان سوالوں کے جواب بھی دے رہے ہیں جن کا جواب پہلے نہیں دیا تھا ۔ اور ویسے بھی اس کا جواب دے بھی تو وہی سکتا ہے ، جو جدید بینکاری کا ماہر ہو اور اس علم پر پوری دسترس رکھتا ہو اور الحمداللہ انور عباسی صاحب نے اپنی ساری عمر اس کام میں کھپائی ہے۔
اب ایک طرف سے یہ اعتراض آرہا ہے کہ عباسی صاحب چونکہ عربی دان نہیں کہلاتے یا کسی مروجہ مذہبی و مسلکی اسکول آف تھاٹ سے متعلق منسلک نہیں ، لہذا وہ اتھارٹی نہیں ہیں ، جسکی وجہ سے ان کے عربی دان نہ ہونے پر اعتراض ہو رہا ہے حالانکہ کوئی عربی دان کہلانے سے بندہ عربی دان تو نہیں بنتا۔
مجھے ذاتی طور پر لیبیا میں ایک بہت بڑے شیخ سے ملنے کا اتفاق ہوا، ساحلی شہر زہرا شہر میں مسجد الصحابہ کے امام مراکش کے بہت بڑے عالم دین شیخ سیدی عبدالسلام سے ملنے سعادت نصیب ہوئی۔
شیخ صاحب آزاد کشمیر و پاکستان سمیت دنیا گھوم چکے تھے اور ایک بڑے متحرک انسان اور جید عالم دین ۔ وہ پاکستان میں تمام جمعیت علماؤں کے جید علماء سمیت مفتی تقی عثمانی صاحب سے بھی مل چکے تھے۔
لیکن کہنے لگے کہ راولپنڈی کے مولانا قاضی عبدالرشید صاحب دھمیال کیمپ والوں کی عربی نے مجھے متاثر کیا اور آج تک اگر کسی عجمی کی عربی دانی نے متاثر کیا ہے تو وہ مولانا قاضی عبدالرشید صاحب ہیں۔
لیکن ہم شخصیات کے سحر میں گرفتار قوم ہیں اور بڑے بڑے ناموں کو ہی اٹھارتی مانتے ہیں۔
حالانکہ ہمارے اپنے ارد گرد ایسے ایسے ہیرے موجود ہوتے ہیں کہ ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا ، وجہ یہ ہے کہ ہم جوہر شناس نہیں ہیں۔
اور پھر ہم اپنے سے دور پیدا ہونے والوں کو احساس کمتری کی وجہ سے خود سے اور اپنے بڑوں سے بڑا سمجھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ہیروں پر بونوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ ” گھر کا پیر ویسے بھی ہولا ہوتا ہے۔
باقی علمی حلقوں میں عباسی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔
آپ کی کتب کی فہرست کچھ یوں ہے۔
?انسانیت ہدایت کی تلاش میں
?اعشاریہ مولانا مودودی
?بینکنگ سود یا ربو
?دلیل کا دور
?اور آپ بیتی زیر طباعت
جبکہ بینکنگ انٹریسٹ یا ربو کا انگلش ترجمہ بھی آ گیا ہے۔