337

ابو جی بھی بدل گئے

 (NA 130) شفقت محمود (160 PP) محمود الرشید  ہمارا حلقہ لاہور کا ایک اہم حلقہ ہے جہاں کبھی میں نے بھی وو کاسٹ کیا تھا یہ وہ حلقہ تھا جہاں نواز شریف کا طُوطی بولتا تھا اور گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لئے جو بھی لوگ لے کر جائے جاتے تھے اُن پر مکمل یقین ھوتا تھا کہ اس سربراہ کے گھر کے سارے ووٹ اسی پارٹی کے ھونگے۔ غریب لوگوں کو گھی کے ڈبے اور راشن دے کر بھی ووٹ لئے جاتے تھے لیکن مڈل کلاس کے لوگ مُروت اور دوستی میں بھی ووٹ دیتے تھے۔۔۔

میرے والد صاحب کی ایک سیاسی ہسٹری ہے اس پر پھر کبھی تفصیلی لکھوں گی لیکن آج ایک تبدیلی انہوں نے دکھائی جن کا ووٹ کبھی نون لیگ اور جماعت سے وابسطہ صرف کشمیرکی آزادی کی وجہ سے تھا۔ وہ ووٹ آج ایک نئی امید اور اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لئے دیا گیا ہے۔۔ پچھلے ستر برسوں سے پاکستان کی عوام ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ھوئی ہے کیونکہ بہترین سیاسی لیڈر نہیں ہیں ۔کام کرنے والوں کے پاس پیسہ نہیں ہے کہ وہ انویسٹ کرکے سیاست میں آ سکیں اور جو پیسہ لگا کر آتے ہیں ان کا مقصد پیسہ بنانا ہے۔ کبھی کسی نے عوام کا نہیں سوچا غریب کا نہیں سوچا اگر سوچا تو صرف اپنے بارے میں اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے۔ 
قائد اعظم کے بعد ایک اور سر پھرا اس عمُر میں پاکستان کی عوام کی خاطر خُوار ہو رہا ہے۔جس کو نہ مال کی ضرورت ھے اور نہ کسی کا خوف لیکن سر پھرا اندھوں میں آئینے بانٹنے نکلا ہے۔ آج بھی اگر ہمیشہ کی طرح وہی ہوا تو یہ ایک اور اُمید بھی دَم توڑ دے گی۔۔ میرے پیارے ابو جی نے بھی آج اپنے پوتے اور پوتی کے مستقبل کے لئے عمران خان کو ووٹ دے دیا صرف اس سوچ کے پیشِ نظر کے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہی ہمارے ملک کی خوشحالی اور ترقی کا ضامن ہے۔ 
میرے والد صاحب کی ایک اپنی سیاسی کشمیری ہسٹری ہے۔ ان کا تعلق کشمیر لبریشن فرنٹ سے رہا۔ جوانی کے ایام میں بھر پور مقبول بٹ کا ساتھ دیا۔کشمیر کے نام پر بے وقوف بنانے والوں کو بھی بارہا آزمایا۔ شروع میں پیپلز پارٹی کو بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کی وجہ سے اس کا بھی بھرپور ساتھ دیا لیکن روٹی،کپڑا ، مکان اور کشمیر کا نعرہ بھٹو کے ساتھ ہی دم توڑ گیا۔ نون لیگ اور جماعت الاسلامی کو بھی آزمایا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ لیاقت بلوچ صاحب ہمارے گھر گرین اور بلیک ٹی پینے خاص طور پر صرف الیکشن کے قریبی دنوں میں ہی آتے تھے۔ ان کا ایک پڑاؤ ہمارا گھر بھی تھا۔ والد صاحب نے نواز شریف کو کشمیری ہونے کی بنیاد اور پاکستان میں کوئی اور متبادل آپشن نہ ھونے کی وجہ سے ووٹ دیا۔ 
ہمارے ہاں اس وقت ووٹ دوستی،رشتے داری برادری ازم پر کاسٹ کئے جاتے تھے۔ اس وقت جب ہم چھوٹے تھے ہمارے حلقے سے قوی خان نے بھی ایک کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ پہلی بار تھا جب ہم نے اندھیرا اجالا کے سبھی کردار اپنے سامنے محمد قوی خان کی سپورٹ میں اپنے حلقے میں الیکشن کے دنوں میں دیکھے تھے ۔قوی سے ایک ُانس اندھیرا اجالا کے انصاف پسند انسپکٹر کی وجہ سے تھا۔۔۔۔ ان پر اس وقت نظمیں بھی بنائی لیکن ہم بچوں کی سپورٹ محمد قوی خان کے کام نہ آ سکی کیونکہ سیاسی مہرے کوئی اور ہی تھے ارشد عمران سلہری ۔لیاقت بلوچ کا دور بھی یاد ہے ۔ پھر وقت بدلا عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا اور نئی نسل کی اپنے گھر میں پہلی باغی تھی جس کو پہلا ووٹ کاسٹ کرنے کا حق ملا ۔۔ 
اس وقت کی گھر کے بچے اور بیویاں بھی صرف شوہر کی مرضی سے ووٹ کاسٹ کرتی تھیں لیکن آج میری والدہ ہوتی تو کبھی کسی کی نہ سنتیں۔۔۔ اپنے گھر سے صرف تبدیلی کی خاطر وہ بھی والد صاحب کی مرضی کے خلاف پہلا ووٹ عمران خان کو ڈالا لیکن والد صاحب کو ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی اس لئے ان کو یہی کہا کہ ابو جی آپ کی ہی مرضی پر ووٹ ڈال کر آئی ھوں ۔یہ پہلا جھوٹ تھا جو اس وقت میں نے مَصلحت میں اپنے پیارے ابو جی سے بولا کیونکہ مجھے اپنے والد صاحب سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں تھا اس کے کچھ عرصہ بعد میں یو کے آ گئی دوبارہ ووٹ کاسٹ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔لیکن جب جب پاکستان گئی والد صاحب سے کبھی بحث نہیں کی سیاست پر کیونکہ میں تبدیلی کے چکر میں رشتوں کے تقدس کو پامال نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن آج سب سے زیادہ خوش میں ہوں کیونکہ میرے والد صاحب جن کی عمر 72 سال ہے اور وہ آج ملک کی سالمیت ،تبدیلی ، خوشحالی اور ہم بچوں کی خاطر عمران خان کو آزمانے کے لئے اِس امید سے تیار ہیں کہ کہ کل وہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ 
عمران خان میرے والد جیسے بہت سے بزرگ مرد اور عورتیں تم سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی ان امیدوں کو تم حکومت میں آنے کے بعد پاؤں تلے مت روندنا ورنہ میرا رب جسے عزت دیتا ہے اسے اُس کی بد نیتی کی وجہ سے ذلت بھی دینے میں زیاسدہ دیر نہیں لگاتا۔ میری دُعا ہے کہ اگر تمہاری نیت صاف ہے اور جو صرف میرا رب جانتا ہے تو وہ تمہیں کامیابی عطا فرمائے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں