پاراچنار کے بارے میں پہلی دو اقساط میں تفصیل کے ساتھ عارف خٹک صاحب نے وہاں رہنے والے شیعہ اور سنی قبائل کے بارے میں بتایا ہے۔ اس سلسلے کی تیسری قسط حاظر خدمت ہے۔
1977ء میں کرم ایجنسی، شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) اورآزاد جموں وکشمیر میں ایک اندازے کے مطابق شیعہ برادری کافی تعداد میں آباد تھی۔ افغان جہاد کا شوروغوغا تھا اور ایران انقلاب کے فوراً بعد شیعہ برادری نے اپنے لئے ایک الگ صوبہ “قراقرم” کا مطالبہ کرڈالا مگر آمر ضیاءالحق نے اس تحریک کو اس بُری طرح سے سبوتاژ کیا کہ یہ مطالبہ کہیں کھو سا گیا۔ اس مطالبہ کے فوراً بعد ضیاءالحق نے سُنیوں کو اس علاقے میں بسانا شروع کردیا۔تاکہ مجمُوعی طور پر شیعہ آبادی کا مقابلہ کیا جاسکے۔1988ء میں یہی طریقہ گلگت میں بھی آزمایا گیا۔ پارا چنار میں جہادی عرب لوگ جو اُسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی تھے۔وہ بھی بس گئے۔جس کی وجہ سے یہاں کی شیعہ آبادی میں احساس عدم تحفظ کا پیدا ہونا فطری تھا۔یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ کرم ایجنسی میں جتنے مسلکی تصادم ہوئے۔اس میں ہمیشہ ایک چیز نے بہت اہم رول ادا کیا کہ بنا کسی ثبوت کےایک دوسرے پر فوراً حملہ آور ہونا۔
کرم ایجنسی میں تین بڑے تصادم ہوئے۔ 1983ء، 1988ء اور 1996ء ،جس میں دونوں اطراف سے بارہ سو سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوئیں۔ یاد رہے کہ یہ واقعات 9/11 سے پہلے کے ہیں۔مست گل نامی بندے کا ذکر کئے بغیر یہ مضمون نامکمل ہوگا ۔ موصوف حرکتہ المجاہدین کے رہنما تھے اور اُسامہ بن لادن کے کافی قریب تصور کئے جاتے تھے۔ انہوں نےانٹرنیشنل اسلامک فرنٹ IIF کی تنظیم بنانے میں مدد کی،اور موجودہ اطلاعات کے مطابق آج کل لشکر جھنگوی کےساتھ اگلے محاذوں پر مصروف عمل ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے 2006ء کے درمیان اس وقت کے پرویز مشرف کے دور حکومت میں چھوٹی چھوٹی سُنی تنظیموں کو کافی فنڈنگ کی، لیبیا کے معمر قذافی بھی اس عمل میں پیش پیش تھے۔ سعودی عرب اور لیبیا کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ خصوصاً قطر اور دبئی سے بھی کافی فنڈنگ ہوتی رہی اور پرویز مشرف چپ چاپ یہ سب دیکھتے رہے۔
مزے کی بات یہ کہ ایک طرف یہی فنڈنگ مسلکی تنظیموں کو ہورہی تھی اور دوسری طرف بلوچستان کی شورش میں بھی مڈل ایسٹ خصوصاً دبئی اور قطر کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کو یہ بات ممتاز بناتی ہے کہ اگر ایک طرف مڈل ایسٹ ا ن کی مدد کررہا تھا تو دوسری طرف عرب دنیا کا روایتی حریف ایران بھی کُھلم کُھلا بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کررہا تھا۔ ہندوستان دونوں طرف سے چومکھی لڑائی لڑ رہا تھا۔ اگر ایک طرف وہ بلوچستان میں برسر پیکار تھا تو دوسری طرف وہ تحریک طالبان کے ان دھڑوں کو سرحد پار سپورٹ کررہا تھا جو بعد میں داعش کا ظہور ثابت ہوا اور اس علاقے میں داعش کی خلافت پر ہمیشہ کے لئے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔اسی دوران ایران بھی اس خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھا چکا تھا اور ایک اطلاع کے مطابق افغانستان میں موجود شیعہ آبادی کی وجہ سے وہ افغان حکومت پر ہمیشہ حاوی رہا ہے۔جس کی گونج کبھی کبھار کابل کی پارلیمنٹ میں بھی سنائی دیتی ہے۔
2007ء کی دوبدو لڑائی کے بعد ، جس میں جہاں سُنیوں کا شدید نقصان ہوا تھا وہاں چاروں طرف سے شیعہ کا ناطقہ بھی بند کردیا گیا۔ راشن، دوائیاں تک پاراچنار میں ناپید تھیں۔حالات اچانک سے سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے تھے۔ گاؤں ملانا کے سروان علی نامی بندے نے اس لئے خود کو گولی ماردی کہ اس کی بیمار بیوی کے لئے کوئی دوائی نہیں مل رہی تھی۔ ایران کی یہاں پر گہری نظر تھی سو یہاں کے مقامی نوجوانوں نے حزب اللہ کی طرز پر ایک نجی ملیشاء تشکیل دی تاکہ وہ سُنی مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں۔ جسے افغانستان کے پنج شیری، ہزارہ شیعہ اور ایران نے مالی اور جانی طور پر کافی سپورٹ کیا۔اسی دوران داعش نے عراق میں اپنی موجودگی سُنی مسلمانوں کے اندر ثابت کرنی شروع کر دی تھی اور ایران نواز حکومت کے لئے مسلسل درد سر بنتے جارہے تھے کہ اچانک شام میں علوی شیعہ حکومت میں ایک ایسے تنازعے نے جنم لیا۔جس نے پورے عرب خطے سمیت جنگ کا رخ ہی موڑ دیا۔
یاد رہے کہ شام تنازعہ دو سُنی قبیلوں کے بیچ پانی کے کنویں پر شروع ہوا اور بشار الاسد نے ایک قبیلے کی حمایت کی۔جس کی وجہ سے دوسرے قبیلے نے بغاوت کردی۔ مسئلہ بہت چھوٹا تھا مگر اچانک شام میں موجود مقدس ہستیوں کے مزارات کو بموں سے اڑانا شروع کردیا گیا۔جس پر لبیک کہتے ہوئے ساری دنیا کے شیعہ متحد ہوگئے اور ایران کی مدد سے شام میں داخل ہوگئے۔جس میں لبنان کی حزب اللہ سر فہرست ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے شیعہ نوجوان بھی اس مقدس جہاد میں کود گئے۔جس میں ایک بڑی تعداد پاراچنار کے شیعہ نوجوانوں کی تھی۔ لبنان کے ایک شیعہ جہادی ویب سائٹ کے مطابق شام میں “الزینبیون” نامی تنظیم کے 60 پاکستانی شیعہ ماردیئے گئے تھے۔یہی حالت سُنی مسلمانوں کی تھی اور پاکستان کی تاریخ میں بنوں جیل اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے فرار قیدیوں پر ہمیشہ انگلی اٹھتی رہے گی کہ ان میں سے کافی سارے مفرور قیدی شام میں لڑتے ہوئے مارے گئے جس کا جواب پاکستانی عوام کا حق ہے۔
پاراچنار میں فوج کا کردار ہمیشہ سے ہی کمزور رہا ہے۔ فوج ہمیشہ یہاں ایک محدود کردار ادا کرتی رہی ہے۔ حالانکہ حساس علاقہ ہونے کے باوجود آرمی کو شمالی وزیرستان سے پہلے آپریشن ضرب عضب کی عمل داری یہاں سے شروع کرنی چاہیئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فوج پر دونوں گروہ جانبداری کا الزام لگاتے ہیں۔
پرویز مشرف کی کچھ مہلک پالیسیوں میں ایک واحد پالیسی جس نے شیعہ کو سُنی کے سامنے کھڑا کردیا اور مُسلح سُنی تنظیموں نے اس سے سُنی رائے عامہ کو ہموار کرنا نہایت ہی آسان کردیا تھا۔جنوبی وزیرستان کے آپریشن میں فوج میں خصوصی طور پر طوری اور بنگش جوانوں کو ہمیشہ آگے رکھا جاتا۔تاکہ نفسیاتی طور پر شدت پسندوں پر فوج کی برتری ہو۔ یہی حالت مشہور لال مسجد کے متنازعہ آپریشن میں بھی شیعوں کیساتھ ہوا۔ جس کی قیمت آج شیعہ آبادی کو چُکانی پڑ رہی ہے۔ آرمی جو ایک اصول پر کاربند ہے جہاں شیعہ سُنی کی کوئی تفریق نہیں ہوتی اور فوج جیسا ادارہ اس لعنت سے مکمل طور پاک تھا مگر مشرف کی غلط اور خودغرضانہ پالیسیوں نے فوج کو بھی کافی مشکلات سے دوچار کیا۔
فوج کی انٹیلی جنس کی واضح کمی ہمیں پاراچنار میں نظر آرہی ہے۔ اتنا حساس علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کو کُلی طور پر اس کے بارڈر سیل کردینےچاہییں تھے اور کرم ایجنسی سے اسلحہ کا مکمل خاتمہ کرنا چاہیئےتھا۔جیسے انہوں نے وزیرستان جنوبی وشمالی میں کیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ کوہاٹ سے لے کر پارا چنار تک فوج کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کردینا چاہیئے مگر دیر کرتے کرتے اتنی دیر کردی گئی۔جب حالات مکمل طور پر پاکستان کے مخالف ہوگئے۔ایرانی اسلحہ یہاں آسانی سے ملنے لگا۔خصوصاً ایرانی سنائپر رائفل کی شہرت قبائلی علاقوں میں پھیل گئی اور آسانی سے ہر جگہ ایرانی سنائپرز ملنے لگے۔سی پیک کی وجہ سے فوج نے جہاں کافی سخت فیصلے کئے۔ کراچی کے حالات جو کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔اسی سختی سے فوج نے پاراچنار کو ٹارگٹ کیا اور سیکورٹی مکمل طور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ شہر کو اسلحہ سے مکمل طور صاف کردیا گیا۔جو وہاں کے مقامی لوگوں کے لئے ناقابل قبول تھا۔
(جاری ہے)
تعارف : بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک، مکالمہ ڈاٹ کام، یہ تحریر مصنف کی ذاتی تحقیق پر مبنی ہے۔