متنازع کشمیرکو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان گزشتہ منگل کو شروع ہونے والا فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ ہفتے کو بھی نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں شدت آ گئی۔
پاکستان اور بھارت نے ان جھڑپوں کے دوران ایک دوسرے پر شہری آبادیوں کو مارٹر بموں اور ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ہدف بنانے کا الزام لگایا ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں کے حکام نے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں ضلع پونچھ کے سلوتری نامی گاؤں میں 24 سالہ روبینہ کوثر، اُن کا پانچ سال کا بیٹا فیضان اور نو ماہ کی بچی شبنم موقع ہی پر ہلاک ہو گئے جب کہ روبینہ کا خاوند محمد یونس زخمی ہوا۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے پہلے پونچھ ہی کے من کوٹ علاقے میں ایک خاتون نسیم اختر شدید طور پر زخمی ہوئی تھیں۔
حکام نے مزید بتایا کہ سلوتری اور منکوٹ کے ساتھ ساتھ پونچھ کے بالاکوٹ اور کرشنا گھاٹی سیکٹروں میں بھی پاکستانی فوج نے بھارتی چوکیوں اور دوسرے ٹھکانوں کو فائرنگ اور شیلنگ کر کے ہدف بنایا۔
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی فوج کی اس کارروائی میں بھارتی فوج کا کوئی جانی یا مالی نقصان ہوا یا نہیں۔
اُدھر پاکستان میں مسلح افواج کے ترجمان ادارے ‘انٹر سروسز پبلک ریلیشنز’ (آئی ایس پی آر) نے بھارتی فوج پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی سرحدی علاقوں کو بشمول ہارٹ اسپرنگ، تتہ پانی اور جانڈروٹ کو بلا اشتعال فائرنگ اور شیلنگ کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔
آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج کی اس کارروائی میں حد بندی لائن کے پاکستانی علاقے میں دو عام شہری اور دو فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
بیان کے مطابق جھڑپوں میں دو شہری زخمی بھی ہوئے ہیں جن کو کوٹلی کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
فائرنگ اور جوابی فائرنگ کے واقعات حد بندی لائن کے اوڑی اور چکوٹھی علاقے میں بھی پیش آئے ہیں جس کے بعد دونوں طرف کے متاثرہ علاقوں سے سیکڑوں کنبے محفوظ مقامات کو منتقل ہوئے ہیں۔
اوڑی سیکٹر میں کشیدگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا کمل کوٹ کا علاقہ ہے جہاں گولہ باری سے کئی گھر تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں نے اوڑی قصبے میں ایک اسکول کی عمارت میں پناہ لے رکھی ہے۔
کمل کوٹ کی ایک خاتون خالدہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا، “ہمارے گھروں کو نقصان پہنچا لیکن ہم کسی طرح بچ گئے۔ اب یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ خدارا اس گولہ باری کو بند کرو یا ہمارے رہنے کے لیے کوئی موزوں انتظام کرو۔”
ایک اور شہری محمد رفیق کا کہنا تھا، “ہم اس گولہ باری کا 2008ء سے شکار بنتے چلے آئے ہیں۔ یہ اب تقریباً روز کا معمول بن گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو آپسی معاملات کو بات چیت کے ذریعے سلجھانا چاہیے تاکہ ہم بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔ آخر ہم بھی انسان ہیں۔”
اس دوران بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے حد بندی لائن پر پیش آنے والی فائرنگ اور شیلنگ کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے پونچھ اور راجوری اضلاع کے سرحدی علاقوں میں مزید دو سو انفرادی اور اتنی ہی تعداد میں کمیونٹی بنکر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جموں میں حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ نئے بنکر ایک ماہ کے اندر اندر اُن مقامات پر تعمیر کیے جائیں گے جہاں یہ سہولت اس وقت موجود نہیں ہے۔ ان بنکروں میں مقامی لوگ فائرنگ سے بچنے کے لیے پناہ لیتے ہیں۔