معذور مقامی حکومتیں مستعفی ہو نہ ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل بات یہ کہ سارا بھرم گندی دولت کی دلدل میں دھنستا اور غرق ہوتا جارہا ہے، جو بچانے کی کوشش کرے گا وہ بھی ساتھ جائے گا لیکن وہ جو عدیم نے کہا تھا۔
تین باتوں پر ماتم جاری ہے۔’’جے آئی ٹی‘‘ کی رپورٹ کا پہلے سے اندازہ تھا تو کیسے؟ دوسرا یہ کہ’’بحران‘‘ پیدا ہورہا ہے یا ہوچکا ہے۔ تیسرا جمہوریت کا آئیل ٹینکر الٹنے کی بات جسے دراصل ڈرائیور نے طاقت اور دولت کے نشے میں دھت ہو کر خود الٹایا ہے۔جہاں تک’’جے آئی ٹی‘‘کی رپورٹ بارے اندازوں کا تعلق ہے تو کوئی تعصب نہیں، ان کی چیخوں سے لوگوں نے جان لیا تھا کہ……….
والا’’حادثہ‘‘ ہوگیا ہے۔ ہنستے ہوئے پیش ہوتے تھے، روتے چیختے چلاتے باہر آتے تھےجو اس بات کا اعلان اور اعتراف ہوتا تھا کہ جو بات اب تک بنی ہوئی تھی بگڑ رہی ہے۔
حقیقت یہ کہ یہ لوگ ملکی قانون نہیں، قانون قدرت کی پکڑ، لپیٹ اور زد میں آئے ہیں کہ’’ات خدادا ویر‘‘ ہوتا ہے اور اب انہیں وکیلوں کی نہیں عامل بابوں، بنگالی جادوگروں اور کالے علم کے ماہروں کی ضرورت ہے۔ یہ دلیلوں کا نہیں تعویذ گنڈوں کا کیس ہے۔ 63۔62 پر جتنی چاہیں چرب زبانی کرلیں، یہ آپ کے آئین مقدس کا حصہ ہیں۔ جانے پہچانے ذرائع آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثے اور لائف سٹائل کدھر لے جائیں گے؟ دستاویزات میں جعلسازی کا ممکنہ جواب یا جواز کیا ہوسکتا ہے؟ نمائندگی کا ایکٹ کیا کہتا ہے؟ گوشوارے ادھورے یا جھوٹے۔ کوئی ایک آدھ زخم ہو تو بندہ مرہم پٹی کا سوچے، یہاں تو ہر مسام ناسور دکھائی دیتا ہے۔
اوپر موروثیت نیچے بے دست و پا نام نہاد مقامی عوامی حکومتیں؟ اس جگاڑ کو کوئی ٹٹیری یا فکری ٹٹ پونجیا ہی جمہوریت کہہ سکتا ہے۔ جینوئن جمہوریت ہو تو اس کے ڈی ریل ہونے کا تصور بھی سیاسی کفر سمجھا جائے لیکن ایسا ہے نہیں ۔کہتے ہیں برطانوی جمہوریت طویل پراسیس سے گزری ہے تو کیا تم پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرکے ہمیں بھی ہزار سالہ عذاب سے گزاروگے؟ اگر کارمینو فیکچرنگ شروع کریں تو ویسی کار بنائو گے جیسی فورڈ نے بنائی تھی؟ نہ اس میں فیول ٹینک تھا نہ سٹیئرنگ، نہ بریکیں تھی نہ ہارن نہ چھت تھی نہ دروازے۔ ہوش کے ناخن لو کہ آج کوئی ملک طیارہ سازی شروع کرے تو کیا پہلے ویسا جہاز بنائے گا جیسا رائٹ برادرز نے بنایا تھا؟20ویں صدی کے پہلے دو عشروں تک تو برطانیہ میں عورتوں اور عوام کو ووٹ کا حق ہی نہیں تھا، 1918میں21سال سے زیادہ عمر کے مردوں اور30سال سے زیادہ عمر کی عورتوں کو پہلی بار ووٹ کا حق ملا تو ادھر دھکیل کے ہزار سال پراسیس سے گزاروگے ہمیں؟ بند کرو یہ ڈرامہ کہ آہستہ آہستہ بہتری آئے گی…….دنیا بھر میں ماڈلز موجود ہیں، کوئی اٹھالو یا دو چار کی کاک ٹیل بنالو لیکن ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائو ورنہ یہ’’ریل ڈی ریل‘‘ کا کھیل چلتا رہے گا۔2017میں جمہوریت کی آڑ میں مکروہ موروثیت اور معذور مقامی حکومتیں کم از کم میرے وارے میں ہرگز نہیں۔