جب سے دنیا وجود میں آئی ہے مرد و زن کے تعلقات موجود ہیں۔ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کے ساتھ مختلف مظالم ہوتے آئے ہیں اور ان کے تذکرے بھی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ واقعی عورت کئی مقامات پر بے حد مظالم کا شکار ہے جس میں سے ایک شوہر دار ہونے کے باوجود خوشگوار ازدواجی زندگی سے محرومی ہے۔
لکھنے والے اپنے اپنے زاوئیے سے لکھتے آئے ہیں۔ کسی کے نزدیک عورت کے لئے ازدواجی زندگی صرف بستر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے مگر کچھ کے نزدیک ایک عورت کی یہ خواہش اس قدر ضروری ہے کہ جس کے لئے وہ اپنے اور پرائے بستر کا فرق بھی بھول جاتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ یا یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جو نہیں ہے وہی ضروری ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ سو میں سے ایک نکال دو تو وہ سو نہیں رہتا ننانوے بن جاتا ہے اب یہ تو نظر نظر کی بات ہوگئی کہ نظر ایک پہ رکھنی ہے یا ننانوے پر۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ مرد واقعی بہت ظالم ہے۔ اپنی خواہش تو کبھی فلموں سے کبھی ادھر ادھر سے پوری کر ہی لیتا ہے اور عورت کو اپنی جذبات کی آگ میں جلنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے مگر کیا ہر جگہ اور ہر محاذ پر صرف عورت مظلوم اور مرد ظالم ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ میاں بیوی کا جو تعلق ہوتا ہے وہ اس قدر قریبی ہے جو پوری دنیا میں کسی جائز رشتے سے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دونوں کا ایک دوسرے سے یہ تعلق قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ پوری ایمانداری، تمام تر محبت اور الفت کے ساتھ اس تعلق کو برتا جائے تاکہ آپ کا رفیق حیات بھی اس تعلق سے لطف اندوز ہوسکے۔ اس موضوع پر جتنی بھی تحاریر پڑھ کے دیکھ لیں آپ کو مرد ظالم اور عورت مظلوم نظر آئے گی۔ مگر ذرا ٹہریں اور بانو قدسیہ کا ایک جملہ یاد کرتے چلیں۔
عورت اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھولتی۔ ا س کی شادی اپنے محبوب سے نہ ہو تو وہ اس محبت کی قبر اپنے دل میں لئے رخصت ہوجاتی ہے۔
اب ایک قبر کا مجاور زندہ شخص کے لئے کس قدر فائدہ مند ہوسکتا ہے یہ جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر کسی مرد کی شادی ایسی عورت سے ہوگئی جو پہلے کسی اور سے محبت کرتی تھی تو کیا وہ اپنے شوہر کو وہ لذت اور پیار دے پائے گی جو اس کا حق بنتا ہے یا نہیں؟ اب یا تو بانو قدسیہ سے معذرت کرلی جائے کہ سوری ہمیں آپ سے اتفاق نہیں۔ آپ نے عورت ہو کر عورت کے خلاف اتنی بڑی بات کیسے لکھ دی اور کیا آپ کو نہیں معلوم کہ عورت کی شادی جس سے ہوجائے وہ اسی کی ہوجاتی ہے اور بس اسی سے محبت کرتی ہے اور ساتھ ساتھ امریتا پریتم کو بھی ہدایت کرنا ضروری ہے جو محبت کسی اور سے اور شادی کسی اور سے اصول پر زندگی گزار گئی۔
مردوں کی ازدواجی زندگی کس قدر خوشگوار ہے اور کس قدر دشوار اس کا اندازہ عمومی طور پر کوئی نہیں کرسکتا کیوں کہ مرد اپنی زوجہ اور بستر کے لمحات کبھی حلقہ احباب میں زیر بحث نہیں لاتا۔ جب کہ عورت باآسانی اپنی سہیلیوں سے اس موضوع پر بات چیت کرسکتی ہے۔
ایسے کئی کیسز ہیں جن میں خواتین شادی کے بہت عرصے بعد کہ جب ان کے بچے بھی بڑے ہوچکے تھے اپنی پہلی محبت کے ساتھ روانہ ہوگئیں تو کیا خیال ہے ان کے شوہر اتنے عرصے تک ان سے کیا لذت اور محبت حاصل کرتے رہیے ہوں گے جب کہ وہ جسمانی طور پر شوہر اور دلی طور پر محبوب کے ساتھ ہوتی تھیں۔
بہرحال یہ تعلق جتنا قدیم ہے اس پر اٹھنے والےسوالات بھی اتنے ہی قدیم ہیں اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میرے نزدیک بات صرف اہمیت کی ہے نظر کی ہے۔ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اگر مرد یا عورت بستر پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے تو ضروری نہیں کہ وہ باقی زندگی میں بھی ذمہ دار نہ ہوں۔۔ بلکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اپنی اس کمی کے باعث اپنے شریک حیات کے سامنے شرمندہ ہو کر دوسری ذمہ داریاں زیادہ احسن طریق پر انجام دیتے ہوں۔ اب میاں بیوی نے یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ انہوں نے سو میں سے نکل جانے والے ایک پر نظر رکھنی ہے یا ننانوے پر۔ محبت کبھی جسم سے نہیں ہوا کرتی اسی لئے جسم ایک ہو کر بھی پیاسے رہ جایا کرتے ہیں۔ محبت ہمیشہ خوبیوں سے ہوا کرتی ہے۔ ان خوبیوں کے بہت سے نام ہیں جن میں کچھ یہ ہیں۔ عزت، وفا، خیال، سمجھداری، احساس ذمہ داری اور بردباری۔
یہ تشنگی اور پیاس وہاں رہ جایا کرتی ہے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے سے اپنے معاملات پر بات چیت نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اپنی زندگی کے تمام گوشے جب تک اپنے شریک حیات پر کھولے نہ جائیں اپنی زندگی کی تمام ضروریات اور ہر ضرورت کی آپ کی نظر میں اہمیت سے اسے آگاہ نہ کیا جائے تو یہ مسائل آتے رہیں گے اور میاں بیوی کے ساتھ ساتھ ان کا بستر بھی زیر بحث آتا رہے گا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}