گاؤں سے شیر محمد کا خط کیا آیا، چچا تیز گام نے تو سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ جمن اور استاد کی تو گویا شامت ہی آ گئی۔ جمن اُس وقت کو کوس رہا تھا جب اُس نے چچا تیز گام کو خط پکڑایا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چچا تیز گام جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے، جمن تیر کی طرح اُن کی طرف لپکا۔
’’مالک۔۔! خط۔۔‘‘
’’اے۔۔ ہے۔۔ کیا کہا۔۔!!‘‘ چچا تیز گام چلآ اٹھے۔
’’دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا، میں تمہیں خط نظر آتا ہوں ؟‘‘
’’نن۔۔ نہیں۔۔ مم۔۔ مالک!۔۔ آ۔۔ آپ خط نہیں مم۔۔ میرا مطلب ہے مالک! خط۔ ‘‘ چچا تیز گام کے گھورنے پر جمن بوکھلا گیا۔
’’پھر وہی۔۔ کیا تمہاری آنکھیں نہیں ہیں، دن دیہاڑے میں تمہیں خط نظر آتا ہوں۔ ‘‘
’’مالک! تو کیا آپ رات کو خط نظر آتے ہیں۔ ‘‘ استاد نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔
’’اُف خدایا۔۔! کیسے پاگلوں سے پالا پڑا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام جھنجھلاہٹ سے اپنے گال پیٹتے ہوئے بولے۔
’’بیگم۔۔! بیگم۔۔! تم کہاں ہو؟‘‘ چچا تیز گام نے بیگم کو پکارا۔
’’کیوں چِلّا رہے ہیں، کیا ہوا؟‘‘ بیگم باورچی خانے سے نکلتے ہوئے بولیں۔
’’بیگم یہ پوچھو کیا نہیں ہوا، ان نا ہنجاروں کو دیکھو، میں ان کو خط نظر آتا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔
’’آپ انہیں خط نظر آتے ہیں، کیا مطلب؟‘‘ بیگم حیرت سے بولیں۔
’’مطلب تو تم ان ہی سے پوچھو۔۔!‘‘ چچا تیز گام بولے۔
’’جمن بتاؤ! کیا بات ہے؟‘‘
’’بیگم صاحبہ! آج ڈاکیا مالک کے نام ایک خط دے کر گیا تھا۔ میں تو ان کو وہ خط دے رہا تھا۔ لیکن یہ میری پوری بات سنے بغیر ہی مجھ پر بگڑنے لگے کہ میں انہیں خط کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ جمن بُرا سا منہ بنا کر بولا۔
’’آپ بھی نا! بس بال کی کھال اُتار لیتے ہیں ‘‘ بیگم نے بڑبڑاتے ہوئے باورچی خانے کا رخ کیا کیوں کہ انہوں نے رات کا کھانا تیار کرنا تھا۔
’’بال کی کھال۔۔؟ بیگم تم بھی کمال کرتی ہو بھلا بال کی بھی کھال ہوتی ہے۔۔ ارے۔۔ ارے‘‘ چچا تیز گام کہتے کہتے رُک گئے اور جمن کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’جمن! تم نے کیا کہا ہمارا خط آیا ہے۔ ارے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘
’’آپ سنتے تو بتاتا نا۔۔!‘‘ جمن جل کر بولا۔
’’بس۔۔ بس۔۔ اب زیادہ باتیں نہ بناؤ، لاؤ ہمارا خط۔ ‘‘
چچا تیز گام نے تیزی سے جمن کے ہاتھ سے خط جھپٹ لیا اور لگے اُسے جلدی جلدی کھولنے۔
’’مالک۔۔! ذرا خط آرام سے کھولیے، کہیں خط پھٹ ہی نہ جائے۔ ‘‘ چچا تیز گام کو تیزی سے خط کھولتے دیکھ کر استاد بول پڑا۔
’’اچھا!۔۔ تو اب تم مجھے خط کھولنا سکھاؤ گے۔ ‘‘ وہ اُستاد کو گھورتے ہوئے بولے۔
’’اور یہ کیا۔۔! تم دونوں میرے سر پر کیوں کھڑے ہو، جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ یہ ہمارا خط ہے۔ اسے ہم اکیلے ہی پڑھیں۔ ‘‘
چچا تیز گام کے الفاظ درمیان میں رہ گئے کہ چرکی آواز سنائی دی انہوں نے چونک کر خط کی طرف دیکھا تو خط درمیان سے پھٹ چکا تھا کیوں کہ وہ تو جمن اور اُستاد کی طرف متوجہ تھے۔ اور ہاتھوں سے جلدی جلدی خط کھول رہے تھے۔
’’لو پھڑوا دیا نا خط‘‘ وہ اُن دونوں پر برس پڑے چچا تیز گام نے چونک کر خط کی طرف دیکھا تو وہ پھٹ چکا تھا۔
’’جاؤ جا کر ٹیپ لے کر آؤ۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے بولے۔ جمن دوڑ کر ٹیپ لے آیا۔
’’تم خط کو پکڑ کر رکھو میں ٹیپ لگاتا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام ٹیپ لیتے ہوئے بولے۔ پھر جمن خط کو جوڑنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ملانے لگا۔ چچا تیز گام سے بھلا کہاں صبر ہوتا تھا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جلدی سے ٹیپ کاٹ کر خط پر لگا دی۔
’’اوہ۔۔ مالک۔۔! یہ آپ نے کیا کر دیا۔۔!‘‘ جمن کے منہ سے نکلا۔
’’اندھے ہو کیا، دیکھتے نہیں ہم نے خط کو جوڑا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔
’’دیکھ لیں، آپ نے کس طرح خط جوڑا ہے۔ ‘‘ جمن الٹے جڑے ہوئے خط کو چچا تیز گام کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔
’’تم سے آج تک کوئی کام سیدھا ہوا بھی ہے، اب دیکھو خط اُلٹا جڑوا دیا۔ ‘‘ چچا تیز گام اُلٹا جمن پر برس پڑے۔
’’لاؤ مجھے دو خط۔۔ میں جوڑتا ہوں۔۔‘‘ چچا تیز گام غصے سے جمن کی طرف دیکھتے ہوئے بولے اور خط جمن کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’مالک !۔۔ خط پر لگی ہوئی ٹیپ ذرا احتیاط سے اتارئیے گا۔ ‘‘ جمن کے اس مشورے پر چچا تیز گام نے کھا جانے والی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا، لیکن منہ سے کچھ نہ بولے۔ اور ٹیپ اتارنے لگے۔ جب ٹیپ اتر چکی تو انھوں نے اس مرتبہ پوری احتیاط کے ساتھ ٹیپ لگائی اور یوں خدا خدا کر کے خط جڑا۔ چچا تیز گام خط پڑھنے لگے۔ خط کی عبارت پڑھ کر وہ مارے خوشی کے اچھل پڑے۔
’’اوہ۔۔ مارا۔۔!!‘‘ چچا تیز گام نے پُر جوش انداز میں نعرہ لگایا۔
’’کوئی مچھر بھی آج تک آپ نے نہیں مارا، آج کس کو مار دیا۔۔‘‘ چچا کا زور دار نعرہ سن کر بیگم باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔
’’بیگم تم بھی بس بات کا بتنگڑ بنا لیتی ہو۔ ہمیں کیا پڑی ہے جو کسی کو ماریں۔ اوہ مارا کا نعرہ تو ہم نے خوشی میں لگایا ہے۔ کیوں کہ گاؤں سے ہمارا جگری یار شیر محمد آ رہا ہے۔ ‘‘
’’شیر محمد وہی نا! جسے ملنے آپ گاؤں گئے تو وہ آپ کے گاؤں جانے سے پہلے ہی کہیں چلا گیا تھا۔ ‘‘ بیگم طنزیہ لہجے میں بولیں۔
’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ وہی۔۔‘‘ چچا تیز گام زور سے سر ہلاتے ہوئے بولے۔
’’بیگم وہ گاؤں چھوڑ کر نہیں گیا تھا بلکہ۔۔ بلکہ۔۔‘‘ چچا تیز گام اچانک کچھ کہتے کہتے رُک گئے۔
’’کیا بلکہ۔۔؟‘‘ بیگم نے پوچھا۔
’’بلکہ یہ کہ، بلکہ کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام فوراً بولے۔
اب بھلا وہ کیسے بتاتے کہ گاؤں میں شیر محمد سے اس لیے ملاقات نہیں ہوئی تھی کہ وہ بغیر اطلاع کیے گاؤں پہنچ گئے تھے۔
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ بیگم نے عجیب نظروں سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔
’’بیگم بات کو چھوڑو اور ہمارے جگری یار شیر محمد کا خط سنو!
آہا۔۔ کیا پیارا خط لکھا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بات ٹالتے ہوئے بولے۔
’’پیارے دوست تنویر احمد!
مجھے یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ آپ گاؤں آئے اور میں آپ کو نہ مل سکا کیوں کہ میں کراچی ایک شادی میں گیا ہوا تھا۔ آپ بھی تو۔۔ ب۔۔ بغیر۔۔ ا۔۔ ط۔۔‘‘
چچا تیز گام نے پڑھتے پڑھتے یک دم بریک لگا دی۔ کیوں کہ آگے شیر محمد نے چچا تیز گام سے گاؤں آنے کی اطلاع نہ دینے کی شکایت کی تھی۔ چچا تیز گام نے شکایت والی سطروں کو ہضم کیا اور پینترا بدل کر اگلی سطر پڑھتے ہوئے بولے: ’’ہاں۔۔! تو آگے لکھا ہے۔ ‘‘
’’آگے کا تو آپ بعد میں بتائیے گا۔۔ پہلے یہ تو بتائیں کہ اس سے پیچھے کیا لکھا ہے۔ جو آپ نے چھوڑ دی ہے۔ ‘‘ بیگم مشکوک نظروں سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’ہم کیوں چھوڑنے لگے۔۔‘‘ بیگم کے جملے پر چچا تیز گام گڑبڑا گئے۔
’’اچھا تو آپ گاؤں شیر محمد کے پاس بغیر اطلاع دئیے چلے گئے تھے۔ ‘‘ بیگم انھیں گھورتے ہوئے بولیں۔
’’بیگم۔۔! تم بھی کیا پرانی باتیں لے کر بیٹھ گئیں۔ آگے تو سنو! کیا پیاری بات لکھی ہے ہمارے جگری یار شیر محمد نے۔۔‘‘ چچا تیز گام نے بات بدلی اور آگے خط پڑھنے لگے:
’’پیارے تنویر احمد! میرے باغوں کے آم پک چکے ہیں۔ میں ان شاء اﷲ آپ کے لیے آموں کی پیٹیاں لے کر خود آپ کے پاس آؤں گا۔ آنے کی اطلاع میں آپ کو فون کے ذریعے دے دیتا لیکن اُس دن ریل گاڑی میں آپ جلدی میں اپنا ایڈریس دیتے ہوئے اپنا فون نمبر دینا بھول گئے تھے۔ میں 9تاریخ کو آؤں گا اور آپ کے لیے ڈھیر سارے آم لاؤں گا۔
آپ کا دوست شیر محمد۔ ‘‘
’’آہا۔۔ اب آئے گا مزہ۔۔‘‘ چچا تیز گام نے خط ختم کر کے خوشی کا اظہار کیا۔
’’بڑے بڑے۔۔ پیلے پیلے۔۔ مٹھاس بھرے آم۔۔ اور وہ بھی کئی پیٹیاں۔۔واہ بھئی واہ۔۔‘‘ چچا تیز گام خیالوں ہی خیالوں میں میٹھے آم کھا رہے تھے۔ کیوں کہ وہ آموں کے بے حد رسیا تھے، اُن کو غالبؔ صرف آموں کی وجہ سے ہی پسند تھے۔ ورنہ غالبؔ کی شاعری اور خطوط سے اُن کو چنداں دلچسپی نہیں تھی۔ اقبال مرحوم کی سوانح میں سے بھی اُن کو بس وہی ایک واقعہ اچھا لگتا تھا جس میں ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے سیر پکا آم کھایا تھا۔
’’اچھا تو یہ بات ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر بیگم باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں۔
کچھ دیر بعد چچا نے جمن اور استاد کو طلب کر کے کہا:
’’دیکھو! گاؤں سے ہمارا جگری یار شیر محمد آ رہا ہے۔ ہمارے دوست کے استقبال کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دو۔ ہمارے دوست کے استقبال میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ ہمارا دوست پوری آن بان، شان اور آموں کی پیٹیوں کے ساتھ آ رہا ہے۔ ہم خود شیر محمد کو لینے اپنی چاند گاڑی پر اسٹیشن جائیں گے، ارے۔۔ ! لیکن ہم آموں کی پیٹیاں اسٹیشن سے کیسے لائیں گے؟‘‘ چچا تیز گام بولے۔
’’شیر محمد آموں کی ایک آدھ پیٹی ہی لائیں گے اُسے آپ اپنی چاند گاڑی ہی پر رکھ کر لے آئیے گا۔ ‘‘ جمن بولا۔
’’ہا۔۔ ہا۔۔ ایک آدھ پیٹی۔۔ اماں جاؤ۔۔! گاؤں میں شیر محمد کے بہت سے باغات ہیں۔ وہ بہت سی آموں کی پیٹیاں لے کر آئے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام ہاتھ نچاتے ہوئے بولے۔
’’آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کا دوست شیر محمد اپنا پورا باغ ہی آپ کے لیے اٹھا لائیں گے۔ ‘‘ باورچی خانے سے بیگم کی آواز سنائی دی۔
’’ہاں۔۔! تو جمن میں کہہ رہا تھا کہ آموں کی بہت سی پیٹیاں ہم اسٹیشن سے کس طرح لائیں گے؟‘‘ چچا تیز گام بیگم کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے۔
’’مالک پھر ہم ایک وین کرائے پر لے لیتے ہیں۔۔‘‘
استاد نے مشورہ دیا۔
’’وین۔۔ ہاں۔۔! یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘
استاد! لگتا ہے تم ہماری صحبت میں رہتے ہوئے کافی عقل مند ہو گئے ہو۔ ہاں تو یہ طے ہو گیا کہ شیر محمد کو ہم اپنی چاند گاڑی پر لائیں گے اور آموں کی پیٹیاں وین میں آئیں گی۔ اور وین میں آموں کی حفاظت کے فرائض جمن سر انجام دے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام تیز تیز بولتے چلے گئے۔
’’آپ مجھے آموں کا محافظ بنانا چاہتے ہیں یعنی مینگو گارڈ (Mango Guard)۔ واہ بھئی واہ۔۔ مزہ آ گیا۔۔مینگو گارڈ۔ ‘‘ جمن کو یہ خطاب کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا تھا۔
’’لیکن! خبردار جو تم نے آموں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو۔ ‘‘ چچا تیز گام نے جمن کو آنکھیں دکھائیں۔
’’لیکن مالک۔۔! نظریں اٹھائے بغیر میں آموں کی حفاظت بھلا کس طرح کر سکوں گا؟‘‘
’’ٹھیک ہے تم نظریں اٹھا لینا، لیکن خبردار میلی نظروں سے آموں کی طرف مت دیکھنا۔۔‘‘ چچا تیز گام بولے۔
’’کیوں مالک! کیا اس سے آم میلے ہو جاتے ہیں یا پھر آموں کو نظر لگ جاتی ہے۔ ‘‘اُستاد بول اُٹھا۔
’’دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا بھلا آموں کو بھی نظر لگتی ہے۔ یہ تو میں نے اس لیے کہا تھا کہ۔۔ ارے۔۔ ہمیں تو اپنے دوست گلو میاں کی طرف جانا تھا اور تم نے ہمیں باتوں میں لگا لیا جاؤ جا کر اپنا کام کرو، ویسے تو ہمارے دوست کے آنے میں کچھ دن باقی ہیں۔ لیکن تم ہمارے جگری یار کے استقبال کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دو، ہمارا دوست پہلی مرتبہ ہمارے گھر آ رہا ہے۔ اور وہ بھی آموں کے ساتھ‘‘ چچا تیز گام نے اُن دونوں کو ہدایات دیں اور گلّو میاں کی طرف رخ کیا وہ ان کا ہی انتظار کر رہے تھے۔
’’ارے میاں تیز گام! خیر تو ہے آج تو تم نے بہت انتظار کروایا‘‘ اُن کو دیکھ کر گلّو میاں بولے۔
’’ہاں۔۔ ہاں۔۔! آج تو خیر ہی خیر ہے۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی خیر ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام مسکراتے ہوئے بولے۔
’’وہ اپنا دوست ہے نا شیر محمد! یار وہی جو گاؤں میں رہتا ہے۔ جس کے پاس ہم گاؤں ملنے گئے تھے۔ وہ آ رہا ہے۔ اور ساتھ میں آموں کی پیٹیاں بھی لا رہا ہے۔ ‘‘
’’اوہ تم آموں کی پیٹیاں اکیلے اکیلے ہی اڑانا چاہتے ہو۔ ‘‘ گلّو میاں اپنی بڑی سی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
’’اگر میں اکیلے اڑانا چاہتا تو پھر بھلا تمہیں کیوں بتاتا۔۔؟‘‘ چچا تیز گام اُس کی بات کا بُرا مان گئے۔
’’ارے۔۔ تیز گام۔۔! میں تو مذاق کر رہا تھا۔ اچھا تو پھر کب آ رہے ہیں تمہارا دوست شیر محمد؟۔۔‘‘ گلّو میاں کھسیانے سے ہو کر بولے
’’نو تاریخ کو آئے گا۔ چلو یار پہلوان جی کو بھی اس آم پارٹی کی دعوت دے کر آتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔
اُن کے گھر آموں کے آنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح اُن کے تمام دوستوں میں پھیل گئی تھی۔ چچا تیز گام ہر ملنے والے کے سامنے آموں کا ذکر چھیڑ دیتے اور پھر 9 تاریخ کو آم پارٹی کی دعوت دے ڈالتے۔ اُن کے دوست و احباب میں آج کل آموں کا ہی تذکرہ ہو رہا تھا۔ سب کو 9 تاریخ کا بے چینی سے انتظار تھا۔ خود چچا تیز گام ہر وقت آموں کے خیال میں مست رہنے لگے تھے۔ اب تو خواب میں بھی اُن کو آم ہی نظر آتے تھے۔
9 تاریخ کو صبح صبح ہی جمن اور اُستاد کی شامت آ گئی۔
’’جمن۔۔ ! تم چندو برف والے سے برف کے تین بلاک لے کر آؤ۔۔‘‘
’’لیکن مالک! آپ برف کے تین بلاکوں کا کیا کریں گے؟‘‘ جمن نے حیرت سے پوچھا۔
’’اپنے سر میں ماروں گا۔ ‘‘ چچا تیز گام جھلآ کر بولے۔
’’مم۔۔ مالک اس طرح تو آپ کا سر چوں چوں کا مربہّ بن جائے گا‘‘ جمن گھبرا کر بولا۔
’’ارے بیوقوف! برف سے ہم آموں کو ٹھنڈا کریں گے، برف لگے آموں کو چوسنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولے۔
’’مالک! تو کیا آپ کے دوست صرف چونسا آم لائیں گے؟‘‘
’’یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔۔ شیر محمد کے ہاں دسہری، لنگڑا، سندھڑی، فجری، انور رٹول سبھی قسم کے آموں کے باغ ہیں۔ لہٰذا وہ ہر قسم کے آموں کی دو، دو، تین، تین پیٹیاں لائیں گے۔
’’اوہ مالک! پھر تو مزہ ہی آ جائے گا۔۔‘‘ جمن خوش ہو کر بولا۔
’’اچھا۔۔ اچھا اب زیادہ دماغ نہ کھاؤ اور چندو برف والے سے برف لے کر آؤ اور سنو!۔۔ واپسی پر شبراتی حلوائی سے پانچ کلو دودھ بھی لیتے آنا، آموں کے ساتھ کچی لسّی بھی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ اور اُستاد! تم شاہین ٹینٹ والوں سے دو بڑے ٹب لے آؤ۔۔‘‘ چچا تیز گام کی ہدایات سن کر وہ دونوں اثبات میں سرہلاتے ہوئے رخصت ہو گے۔ جمن اور اُستاد کے آنے تک چچا تیز گام شیروانی پہنے تیار بیٹھے تھے۔
’’اچھا بیگم! ہم اپنے دوست کو لینے کے لیے اسٹیشن جا رہے ہیں۔ تم دودھ کی کچی لسّی بنا لو۔ اور اُستاد! تم برف کو ٹب میں ڈال کر رکھو۔ جمن! تم میرے ساتھ آؤ۔ تم آموں کی پیٹیوں والی وین میں آؤ گے‘‘ چچا تیز گام نے اپنی چاند گاڑی نکالی وہ جمن کو اپنے پیچھے بٹھا کر گھر سے نکلنے ہی لگے تھے کہ گلّو میاں اور پہلوان جی آ دھمکے۔
’’واہ بھئی واہ بہت خوب! ہمیں ’’مینگو پارٹی‘‘ دے کر خود گھر سے فرار ہو رہے ہو۔ ‘‘ گلّو میاں مشکوک نظروں سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولے۔
’’لو بھلا میں کیوں ہونے لگا فرار۔۔ میں تو شیر محمد کو اسٹیشن سے لینے جا رہا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔
’’اوہ۔۔ ٹھیک ہے پھر تو تم جاؤ۔ ضرور جاؤ۔ لیکن ذرا جلدی آنا یار۔۔! آموں سے اور جدائی اب برداشت نہیں ہو رہی۔ ‘‘ پہلوان جی اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
چچا تیز گام اور جمن تو اسٹیشن روانہ ہو گئے۔ اِدھر دھیرے دھیرے اُن کے دوست و احباب مینگو پارٹی اڑانے اُن کے گھر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے دوپہر تک اُن کا سارا گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا۔ لیکن چچا تیز گام ابھی تک اپنے دوست شیر محمد اور آموں کو لے کر نہیں پہنچے تھے۔ کافی دیر بعد چچا تیز گام منہ لٹکائے گھر میں داخل ہوئے۔ اُن کے ساتھ شیر محمد اور آموں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔
’’کیوں تیز گام! کیا ہوا۔ ‘‘ پہلوان جی نے پوچھا
’’یار پتہ نہیں شیر محمد کیوں نہیں آیا۔ خط میں تو اُس نے 9 تاریخ ہی لکھی تھی۔ ‘‘ چچا تیز گام افسردہ سے لہجے میں بولے
’’لاؤ دکھاؤ، تمہارے دوست کا خط کہاں ہے؟‘‘
’’یہ رہا خط، خود پڑھ لو اس پر صاف صاف لکھا ہے کہ شیر محمد نے 9 تاریخ کو آنا ہے۔ ‘‘
چچا نے شیروانی کی جیب سے خط نکال کر پہلوان جی کی طرف بڑھایا۔ پہلوان جی نے خط پڑھنا شروع کیا اور اس سطر کو بغور دیکھنے لگے جس پر 9 تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ خط کو ٹیپ سے جوڑا گیا تھا اس لیے 9 کا ہندسہ واضح نہیں پڑھا جا رہا تھا۔
’’خط کو ٹیپ کس نے لگائی ہے؟‘‘ پہلوان جی نے پوچھا۔
اس کے جواب میں چچا نے ساری بات بتا دی۔
’’آپ تیزی نہ دکھائیں تو آپ کو چچا تیز گام کون کہے۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ابھی مطلب بتاتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر پہلوان جی نے نہایت احتیاط کے ساتھ ٹیپ اتاری اور کاغذ کو آپس میں ملا کر دکھاتے ہوئے کہا:
’’اب دیکھو کیا تاریخ پڑھی جا رہی ہے؟‘‘
’’یہ۔۔ یہ۔۔ تو۔۔ ہاں یہ تو 9 کی بجائے 19 پڑھا جا رہا ہے۔ ‘‘
’’جی ہاں شیر محمد نے 19 تاریخ کو آنا ہے، آپ نے ٹیپ لگاتے ہوئے ایک کے ہندسے کو نیچے دبا دیا تھا۔ ‘‘
’’اب کیا ہو گا؟‘‘ چچا نے پہلوان جی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’اب بے عزتی ہو گی، مہمان باتیں بنائیں گے اور آپ کو بُرا بھلا کہتے ہوئے یہاں سے رخصت ہو جائیں گے۔ ‘‘
’’کیا ایسا ہی ہو گا؟‘‘
’’جی بالکل ایسا ہی ہو گا، آپ کو تیزی کی کچھ تو سزا ملنی چاہیے۔ ‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہمانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے چچا کا سر چکرانے لگا تھا۔ یہ سب کیا دھرا ان کا اپنا تھا۔
مغرب سے کچھ دیر پہلے اچانک چچا تیز گام کے بھانجے نعیم سجاد آ گئے۔ وہ فوج میں تھے۔
’’ماموں ! یہ سب لوگ کیوں آئے ہیں ؟‘‘ نعیم سجاد نے حیرت سے پوچھا
’’وہ آ۔۔ آ۔۔ آم کھانے کے لیے۔
’’آم کھانے کے لیے۔ ‘‘ نعیم سجاد نے حیرت سے دہرایا۔
’’جی ہاں آم کھانے کے لیے، لیکن۔۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘
اس لیکن کے جواب میں چچا نے تمام داستانِ آم سنا دی۔ ساری بات جان کر نعیم سجاد نے کہا:
’’ماموں ! آپ کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’آؤ میرے سا تھ۔ ‘‘
جب چچا تیز گام نعیم سجاد کے ساتھ گلی میں آئے تو گاڑی میں بہت سی آموں کی پیٹیاں تھیں۔
’’یہ۔۔ یہ۔۔ آم۔۔‘‘
’’ماموں یہ میں آپ کے لیے لایا ہوں، مجھے پتا ہے آپ آموں کے شوقین ہیں، ان دنوں میری پوسٹنگ ملتان میں ہے، یہ آم میں وہیں سے لا رہا ہوں۔ ‘‘ نعیم سجاد نے کہا۔
’’تم تو میرے لیے رحمت بن کر آئے ہو اور مزے دار آم لائے ہو، او جمن۔۔! او استاد۔۔! آؤ اور آم اندر لاؤ، دیر مت کرو، جلدی آؤ۔ ‘‘ چچا نے گلی ہی سے ہانک لگائی۔
کچھ ہی دیر میں مینگو پارٹی اپنے عروج پر تھی۔ مہمان تیزی سے مزے دار آم کھا رہے تھے اور چچا تیز گام کی تعریف کر رہے تھے۔ چچا حسبِ معمول اپنی تیزی پر قابو نہ رکھ سکے اور ترنگ میں آ کر بولے:
’’19 تاریخ کو پھر آم پارٹی ہو گی۔ ‘‘
یہ اعلان سن کر مہمان آم کھاتے جا رہے تھے اور ’’چچا تیز گام زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے جا رہے تھے۔
٭٭٭