اس تحریر کی ابتداء معاصر ہندو پنڈت اچاریہ پرمود کرشنا کی منقبت سے کر رہا ہوں جو ایک غیر مسلم کی طرف سے حضرت علیؑ کیلئے بھرپور خراجِ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس تحریر کا اختتام علامہ اقبالؒ کے اسرارخودی سے ایک والہانہ فارسی کلام بمعہ ترجمے پر کیا ہے جو عین مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔
معاصر ہندو پنڈٹ اچاریہ پرمود کرشنا کہتے ہیں۔
سہارا بے سہاروں کا نبی کے وہ دُلارے ہیں
سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا
علی جتنے تمہارے ہیں علی اتنے ہمارے ہیں
نبی نورِ خدا ھے تو علی نورِ نبی سمجھو
نہ اس سے کم گوارا تھا نہ اس سے کم گوارا ھے
سمندر درد کا اندر مگر میں پی نہیں سکتا
لگے ھوں لاکھ پہرے پر لبوں کو سی نہیں سکتا
علی والو علی کے عشق کی یہ داستان سن لو
اگر علی کا ذکر نہ ہو تو یہ بندہ جی نہیں سکتا
پرمود کرشنا کا کلام انہی کی مدھر آواز میں سننے کیلئے اس لنک پر موجود ہے۔
معروف سکھ دانشور، شاعر و ادیب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کہتے ہیں۔
کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے
ہم سلامت ہیں زمانے میں تو انشاء اللہ
تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے
اسکاٹس نقاد اور ادیب تھامس کارلائیل، 1795-1881، کہتے ہیں کہ حضرت علی ایک عظیم ذہن رکھتے تھے اور بہادری ان کے قدم چومتی تھی، ہم علی کو اس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں، وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے، ان کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے، ان کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے، وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن ان کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش بھی تھی پھر اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے انہیں قتل کردیاگیا، ان کے قتل کی وجہ حقیقت میں ان کا درجہء کمال تک پہنچا ہوا عدل تھا، جب علیؑ سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے، اگر آپ نے قصاص لینا چاہا تو آپ صرف ایک ہی ضرب لگا کر سزا دیں اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے۔
تھامس کارلائل مزید کہتے ہیں کہ ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کہ علی سے محبت اور عشق کریں، کیونکہ وہ ایک جوانمرد اور عالی نفس انسان تھے، علی وہ ہستی ہے کہ جس کے وجدان سے مہر و محبت اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے ہیں، جسکے وجود سے طاقت اور شجاعت کے نغمے بلند ہوتے ہیں، جو شیر سے زیادہ شجاع ہے، لیکن ان کی شجاعت بے مہار نہیں تھی، ان کی شجاعت محبت، عزت اور نرم دلی سے لبریز تھی، حضرت علیؑ نے خود اپنی شجاعت سے متعلق فرمایا ہے کہ اگر تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے آجائیں، تب بھی میں میدان سے فرار نہیں ہوں گا، اور لوگوں کی محبت اور دوستی کے متعلق فرمایا، کیا میں صرف اسی بات پر قانع ہو جاؤں کہ لوگ مجھے امیرالمومنین کہتے ہیں اور لوگوں کی سختیوں اور مشکلات میں انکا ساتھ نہ دوں…؟
برطانوی تاریخ دان ایڈورڈ گبن، 1737-1794، کہتے ہیں کہ حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں میں زندہ رہے گی، بلاشبہ خطابت اور تیغ زنی میں وہ یکتا تھے۔
شامی نژاد امریکی پروفیسر فلپ کے حتی، 1886-1978، کہتے ہیں کہ حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں کیلئے فراخ دل تھے۔
اسکاٹش سیاستدان سر ویلیم مور، 1918-1905، کا ماننا ہے کہ سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی اور انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کر دیا تھا۔
جیرالڈ ڈی گورے، 1897-1984، کہتے ہیں کہ حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی کی مثال رہیں گے۔
برطانوی ماہر تعلیم ولفرڈ میڈلنگ، 1930-2013، کہتے ہیں کہ حضرت علیؑ کے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخ دلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔
معروف مورخ چارلس ملز کہتے ہیں کہ خوش نصیب ہے وہ قوم کہ جس میں علیؑ جیسا عادل انسان پیدا ہوا، نبی اللہ سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰیؑ سے حضرت ہارونؑ کو تھی۔
برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے ،1678-1720، کا کہنا ہے کہ خانہ خدا میں حضرت علی کی ولادت ایک ایسا خاصا ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔
واشنگٹن آئیورنگ کہتے ہیں کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زدعام ہیں، آپ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا۔
بھارتی صحافی ڈی-ایف-کیرے، 1911-1974، کہتے ہیں کہ علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا، اس نے ایک کتاب ”صوت العدالۃ الانسانیہ” یعنی ندائے عدالت انسانی، حضرت علی کے بارے میں تحریر کی تھی لیکن کسی مسلمان نے اسے چھاپنا گوارا نہ کیا تو وہ کافی بے چین ہو گیا، لبنان کے ایک بشپ نے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا گوش گزار کر دیا، بشپ نے اسے رقم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اس کتاب کو خود چھپواؤ، جب یہ کتاب چھپ گئی اور مقبول ہو گئی تو اس کی اشاعت سے اسے بھرپور منافع ہوا، جارج نے بشپ کی رقم ایک تھیلی میں ڈال کر اسے واپس کرنا چاہی تو بشپ نے کہا کہ یہ میرا تمہارے اوپر احسان نہیں تھا بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب وہ خلیفہ تھے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علیؑ کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا اسلئے حضرت محمد رسول اللہ ص کے بعد ان کے وصی امیر المومینن حضرت علیؑ کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا ،جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا اسلئے میں نے حضرت علیؑ کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے اسلئے یہ رقم مجھے واپس کرنے کی بجائے غریبوں میں بانٹ دو۔
جارج جرداق لکھتا ہے کہ حقیقت میں کسی بھی مورخ یا محقق کے لئے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو، وہ اگر چاہے تو ہزار صفحے بھی تحریر کر دے لیکن علیؑ جیسی ہستیوں کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کرسکتا، کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ذات علیؑ کو الفاظ کے ذریعے مجسم شکل دے، لہذا ہر وہ کام اور عمل جو حضرت علیؑ نے اپنے خدا کے لئے انجام دیا ہے، وہ ایسا عمل ہے کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور وہ کارنامے جو انہوں نے انجام دیئے، اس سے بہت زیادہ ہیں کہ جن کو زبان یا قلم سے بیان اور آشکار کیا جائے۔ اس بنا پر ہم جو بھی علیؑ کا عکس یا نقش بناییں گے، وہ یقیناً ناقص اور نامکمل ہوگا۔ جارج جرداق مزید لکھتے ہیں کہ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا اگر تم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟
جارج جرداق معروف یورپی فلسفی کارلائل کے متعلق لکھتا ہے کہ کارلائل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اسکا ذہن علی ابن ابی طالب کی جانب راغب ہوجاتا ہے، علی کی ذات اسکو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرائی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان شعر میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اسکے قلم سے علیؑ کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح پھوٹنے لگتے ہیں، اسی طرح کی کیفیت باروین کاراڈیفو کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، وہ بھی جب کبھی علی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اس کی رگوں میں حماسی خون دوڑنے لگتا ہے اور اسکے محققانہ قلم سے شاعری پھوٹنے لگتی ہے اور جوش اور ولولہ اسکی تحریر سے ٹپکنے لگتا ہے۔
لبنانی عیسائی مفکر خلیل جبران بھی حضرت علیؑ کے عاشقوں میں سے ہے۔ اسکے آثار میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ وہ جب بھی دنیا کی عظیم ہستیوں کا ذکر کرتا ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا نام لیتا ہے۔ خلیل جبران لکھتا ہے کہ علی ابن ابی طالب دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ انکی اپنی عظمت و جلالت انکی شھادت کا سبب بنی۔ علی نے اس دنیا سے اس حالت میں آنکھیں بند کیں جب انکے لبوں پر نماز کا زمزمہ تھا، انہوں نے بڑے شوق و رغبت اور عشق سے اپنے پروردگار کی طرف رخت سفر باندھا، عربوں نے اس شخصیت کے حقیقی مقام کو نہ پہچانا، لیکن عجمیوں نے جو عربوں کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، جو پتھروں اور سنگ ریزوں سے جواہرات جدا کرنے کا ہنر جانتے تھے، کسی حد تک اس ہستی کی معرفت حاصل کی ہے۔
خلیل جبران ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ میں آج تک دنیا کے اس راز کو نہ سمجھ پایا کہ کیوں بعض لوگ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتے ہیں، میرے عقیدے کے مطابق علی ابن ابی طالب اس زمانے کے نہیں تھے، وہ زمانہ علیؑ کا قدر شناس نہیں تھا، علیؑ اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے تھے، مزید کہتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ علی ابن ابی طالب عربوں میں وہ پہلے شخص تھے، جو اس کائنات کی کلی روح کے ساتھ تھے، یعنی خدا کے ہمسایہ تھے اور علیؑ وہ ہستی تھے جو اپنی راتوں کو اس روحِ کلی عالم کے ساتھ گزارتے تھے۔ میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ ان کا ساتھی لگتا تھا، رات ان کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی، علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں، انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا، اسی وجہ سے لوگ ان کی پُرمعنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے، پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔
علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے، وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا، دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا، یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔
معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ علی وہ دردمند، بہادر اور شھید امام ہے کہ کہ جسکی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت شخصیت ہے جو پیامبر ﷺ کی حمایت میں لڑتا تھا اور جس نے معجزہ آسا کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضرب سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے، جنگ احد میں رسول خدا کی تلوار ذوالفقار سے زرہوں اور سپروں کے سینے چاک کرکے حملے کئے، قلعہ خیبر پر حملہ کیا تو اپنے طاقتور ہاتھوں سے اس سنگین لوہے کے دروازے کو اکھاڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا۔ پیامبر ﷺ کو ان سے شدید محبت تھی اور وہ انکے اوپر مکمل اعتماد کرتے تھے۔
معروف عیسایی ادیب، محقق اور ماہر قانون ڈاکٹر پولس سلامہ کہتے ہیں کہ بہت کم لوگ ہیں جو معنویت اور روح حقیقی کی طرف توجہ رکھتے ہیں، لوگوں کی اکثریت ہمیشہ مادیات کے پیچھے بھاگتی ہے، ان راتوں میں جب میں دکھ اور تکلیف میں ہوتا تھا، میرے افکار اور تخیلات مجھے ماضی کی جانب کھینچنے لگے، امام علی اور امام حسین مجھے یاد آنے لگے، میں کافی دیر تک گریہ کرتا رہا اور پھر میں نے کچھ اشعار ”علی و حسین” کے بارے میں سپرد قرطاس کئے۔ اے داماد پیامبر ﷺ آپ کی شخصیت ان ستاروں کے مدار سے بلند ہے، یہ نور کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ پاک اور منزہ باقی رہتا ہے، جسکو زمانے کا گرد و غبار میلا اور داغ دار نہیں کرسکتا، اور جو کوئی شخصیت کے لحاظ سے ثروت مند ہے، وہ کبھی فقیر نہیں ہوسکتا، اے شھید راہ دین و ایمان، آپ نے مسکراتے لبوں کے ساتھ دنیا کے دردوں اور مشقتوں کو قبول کیا، اے ادب و سخن کے استاد، آپ کا شیوہ گفتار اور طرز تکلم اس سمندر کی طرح ہے کہ جس کی وسعتوں اور گہراییوں میں روحیں ایک دوسرے سے ملاقات کرتی ہیں۔ ہاں زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، لیکن علیؑ کا نام چمکتی صبح کی طرح ہمیشہ قائم و دائم رہے گا، ہر روز تمام زمانوں اور صدیوں میں علیؑ کا نام صبح کی سفیدی اور نور کی طرح تمام بشریت کے چہرے پر چمکتا اور دمکتا رہے گا اور ہر روز طلوع ہوا کرے گا۔
معروف اسکالر میڈم ڈیلفائی رقم طراز ہیں کہ علیؑ فیصلوں کے وقت انتہائی درجے تک عادلانہ فیصلے کرتے تھے، علیؑ قوانین الہٰی کے اجرا میں سختی سے کام لیتے تھے، علیؑ وہ ہستی ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت جن کے تمام اعمال کی رفتار بہت ہی منصفانہ ہوتی تھی، علی وہ ہیں کہ جنکی دھمکی اور خوشخبری قطعی ہوتی تھی، پھر لکھتی ہیں کہ اے میری آنکھوں گریہ کرو اور اپنے اشکوں کو میرے آہ و فغاں کے ساتھ شامل کرو کہ اہل بیت کو کس طرح مظلومانہ طریقے سے شھید کردیا گیا۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں۔
مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی ………. عشق را سرمایۂ ایماں علی
پہلے مسلمان اور مردوں کے سردار علی ہیں، عشق کیلئے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔
از ولائے دودمانش زندہ ام ………. در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام
میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔
زمزم ار جوشد ز خاکِ من، ازوست ………. مے اگر ریزد ز تاکِ من، ازوست
اگر میری خاک سے زمزم ابلتے ہیں تو یہ انہی سے ہے اور اگر میری انگور کی شاخ سے مے ٹپکتی ہے تو یہ بھی علی سے ہے۔
از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت ………. ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت
انکے چہرہء مبارک سے پیغمبر (ص) فال لیا کرتے تھے اور ملّتِ حق نے انکی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔
قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش ………. کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
آپ (ص) نے علی (ع) کو روشن اور غالب دین کی قوت فرمایا، دنیا نے آپکے خاندان سے آئین اور قانون حاصل کیا۔
مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب ………. حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب
اللہ کے سچے رسول (ص) نے آپ کو ابو تُراب کا لقب دیا، اللہ نے قرآن میں آپ کو اللہ کا ہاتھ قرار دیا۔
ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست ………. سرّ اسمائے علی داند کہ چیست
ہر وہ کہ جو زندگی کے رموز جانتا ہے، جانتا ہے کہ علی کے ناموں کے اسرار کیا ہیں۔
شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد ………. ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد
اللہ کے شیر نے اس خاک کو تسخیر کیا اور اس تاریک مٹی کو اکسیر کر دیا۔
مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است ………. بوتراب از فتح اقلیمِ تن است
مرتضیٰ کہ انکی تلوار سے حق روشن اور آشکار ہوا اور وہ بوتراب یعنی مٹی کے باپ ہیں کہ انہوں نے تن کی سلطنت کو فتح کیا۔
زیرِ پاش اینجا شکوہِ خیبر است ………. دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است
اس دنیا میں خیبر کی شان و شوکت انکے پاؤں کے نیچے ہے اور اُس جہاں میں انکا ہاتھ آبِ کوثر تقسیم کرنے والا ہے۔
ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم ………. زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
انکی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور انکے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔
۔