ایک بار پھرپھر سےتھوڑی زحمت کریں اور بیس بائیس برس پیچھے چل کر دیکھیں کہ حالات جوں کے توں ہیں، بد سے بدتر ہوئے ہیں یا ان میں کوئی مثبت تبدیلی بھی آئی ہے؟ پڑھتا جا شرماتا جا۔ونڈ کھائو تے کھنڈ کھائو۔ یہی دراصل میاں نوازشریف کی ’’معاشی پالیسی‘‘ تھی کہ ان کے نزدیک قرضے منظور کرانا اور پھر انہیں ہڑپ کر جانا صرف بڑے بڑوں کا ’’استحقاق‘‘ ہی نہیں۔ ان کی ’’معاشی حکمت عملی‘‘ ہی یہ تھی کہ ہر آدمی کو اس کی اوقات، بساط، معدے اور منہ کے سائز کے مطابق حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت قرضے لینے اور ہڑپ کر جانے کی آزادی ہونی چاہئے۔
پیلی ٹیکسی اسکیم اسی سوچی سمجھی اسکیم کا ایک عملی اور نادر نمونہ تھا۔ اس اسکیم سے ایک اور مقصد بھی حاصل کیا جاسکتا تھا اور کیا بھی گیا کہ عوام کو بھی ’’کانا‘‘ کردیا جائے کہ جو آدمی قرضہ لیکر اس کی ادائیگی نہ کرسکے یا کرنا ہی نہ چاہے، وہ اپنے دل میں ان مگرمچھوں کے بارے میں کینہ، نفرت اور کدورت کیسے پالے گا جو کروڑوں اور اربوں روپے کے قرضے لے کر ڈکار جاتے ہیں‘‘۔
’’چوراہا‘‘ 22اگست 1995ءاب ایک اور اقتباس’’جمہوریت کی چیمپئن ان نام نہاد پارٹیوں میں جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں۔ یہ ’’نامزدگی‘‘ کرتے ہیں جبکہ جمہوری عمل میں ’’نامزدگی‘‘ عام زندگی میں ’’حرامزدگی‘‘ کے برابر ہے۔ ان کے عہدیدار دراصل ان کے پالتو اور ذاتی خدمت گار ہوتے ہیں۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک بڑی جمہوری سیاسی جماعت کے ایک سابق صدر پنجاب کو اپنی قیادت کے کپڑے ڈرائی کلینر سے لاتے دیکھا ہے۔ یہ بے عزتیوں، خوشامدوں، ذلتوں اور اہانتوں کی ’’سنوبالنگ‘‘ یا ’’چین ری ایکشن‘‘ ہے۔ بہت بڑے اپنے سے بڑوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور اپنا غصہ اپنے سے چھوٹوں پر اتارتے ہیں۔ چھوٹے اپنوں سے چھوٹوں کی تذلیل سے اپنی زخمی انا کی مرہم پٹی کرتے ہیں اور یوں اوپر سے شروع ہونے والا تضحیک کا یہ سلسلہ نیچے تک سرایت کرجاتا ہے۔
سپر پاور کا سربراہ ہمارے وزیراعظم کیلئے فرعون وزیراعظم وزیروں کیلئے فرعون وزیر ایم این اے کیلئے فرعون ایم این اے، ایم پی اے کیلئے فرعون اور ایم پی اے عرف ’’استحقاقیا‘‘ عوام کیلئے فرعون یہ عجیب جمہوریئے ہیں جن کا وجود ہی غیر جمہوری ہے‘‘’’چوراہا‘‘ 15مئی 1996تیسرا اقتباس پیش خدمت ہے’’محنت ہماری اجرت تمہاری، ذلت ہماری دولت تمہاری، ووٹ ہمارے نوٹ تمہارے، بار ہمارا اقتدار تمہارا، جھنڈا تمہارا ڈنڈا ہمارا، ترانہ تمہارا آنہ ہمارا، منشور تمہارے مزدور ہمارے، آن تمہاری کسان ہمارا ….. ’’بل کلنٹن شیرا ے ایہہ بی بی ہیر پھیر اے‘‘…..’’بل کلنٹن شیرا ے ایہہ بابو ہیر پھیر اے‘‘دما دم مست قلندر، اساں قرضے دے اندرسی ٹی بی ٹی….. سی ٹی بی ٹیبابو، بابو ….. بی بی، بی بیتوں وی ذلیل….. میں وی ذلیلرابن رافیل، رابن رافیل
’’چوراہا‘‘ 2اگست 1996ءنوٹ: 90کی دہائی میں میں بے نظیر کو ’’بی بی‘‘ اور نواز شریف کو ’’بابو‘‘ لکھتا تھاقارئین! مندرجہ ذیل اقتباس جس کالم سے ہے اس کا عنوان تھا’’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘‘ ….. نوش فرمایئے’’اے غاصبوں کے نرغے میں گھری میرے ’’مقبوضہ‘‘ وطن کی مٹی!گواہ رہنا …. گواہ رہناکہ آج میرے پاس آٹے کے پیسے نہیں ہیں۔ پریذیڈنٹ ہائوس، پی ایم ہائوس اور سی ایم ہائوس وغیرہ قائم و دائم ہیں جبکہ میری جھگی پانی کے ریلے میں بہہ گئی ہے جس کے ساتھ ہی میری بیٹی کا مختصر سا جہیز بھی بہہ گیا ہے اور اب اگر اس کے ہاتھ پیلے ہونے کی بجائے اس کا منہ کالا ہو جائے تو برا نہ منانا …. وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ مجھے اپنے سات سالہ بیٹے کو ورکشاپ میں مزدوری کیلئے بھیجنا پڑا، دوسرا بچہ مارکیٹ میں کلیوں کے ہار بیچتا ہے اور تیسرا پلاسٹک کے تھال میں خطائیاں سجا کر بیچتا ہے۔
وطن کی مٹی! گواہ رہنا تونے ان بچوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کیا…. بلکہ تجھے ایسا کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ وطن کی مٹی! گواہ رہنا۔ ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کی سانسیں پھولنا شروع ہوگئی ہیں۔ان کاکھایا پیا پھٹ کر سامنے آنے کو ہے لیکن اس کے باوجود یہ اپنی لوٹ مار کی نشریات میں ’’شارٹ بریک‘‘ تک دینے کوتیار نہیں۔ گواہ رہنا کہ اس ’’منرل واٹر‘‘ اور ’’انٹرکولر‘‘ جمہوریت نے پوری قوم کو ’’سوکڑے‘‘ کی بیماری میں مبتلا کردیا ہے۔ سب کچھ بغیر پرمٹ کے کھانے والوں اور خود کو ’’ایپلائیڈ فار‘‘ اور ’’زیرو میٹر‘‘ کہلانے والوں کو سمجھائو میرے وطن کی مٹی! بھوکے کو دو وقت کی روٹی اور ننگے کو تن بھر کپڑا نہ ملے تو وہ بھونکے گانہیں تو کیا برگر کھائے گا اور پھر جب بھونکتے بھونکتے کاٹنےپراترآیا تو پھر کیا ہوگا۔ بے روزگار کو بکواس بھرا بھاشن نہیں راشن چاہئے۔وطن کی مٹی! گواہ رہنا ’’آئے گا، آئے گا، آئے گا آنے والا‘‘ اور آنےآنے سے ارب ارب تک کا حساب لے گا۔
ان سب پتھر دلوں کی ای سی جی ہوگی، پھر ان کا بائی پاس ہوگا۔ داخلہ خارجہ اور خزانہ بلکہ ہر قسم کی VIPخارش کا علاج ہوگا‘‘۔’’چوراہا‘‘ 30اگست 1996اس کالم کا عنوان تھا ’’پھٹی ہوئی قمیص کٹی ہوئی بجلی‘‘۔ اقتباس حاضر’’اقتدار کا مجرب نسخہ ملاحظہ فرمایئےتخم خود غرضی 17تولے، گل دغا بازی 50تولے، عرق بے غیرتی 1لٹر، روغن منافقت 10تولہ، برگ خیانت 16عدد، معجون رشوت 15چمچ، تخم کنجر کلچر 18عدد، شربت خوشامد و چمچہ گیری دو میگنم سائزبوتلیں،تخم بدی 24عدد، آب جہالت دو گلاس، تھوڑا سا نمک حرام اور شرمناک قسم کا خاندانی شجرہ۔ ان سب کو اچھی طرح مکس کر کے ضمیر فروشی کی دھیمی آنچ پر چڑھا دیں اور ناشکری کی شکر ڈال کرعوام دشمنی یا وطن دشمنی کی ڈوئی میں ڈال کر بھنگ پینے کے بعد پئیں اور VIPبن کر جیئیں۔ مراعات کے کباب کھائیں، استحقاق کے تکے اڑائیں، صوابدیدی اختیارات کا رائتہ اور شورا پئیں، بیٹے کو حرام خور پوسٹنگ دلائیں۔ تھانیدار آپ کو سلام کرے گا۔ تحصیلدار آپ کا حقہ بھرے گا، اے سی آپ کی خوشامد کرے گا،ٹھیکے دار مٹھیاں اور جیبیں بھرے گا، زمانہ آپ سے ڈرے گا، ملک کی ایسی تیسی، عوام کا بیڑا غرق، آپ کی کشتی پار۔ ۔ ۔ ۔ ۔