سعودی عرب میں روزگار کیلئے مقیم پاکستانی شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر پاکستانی بچوں کو میعاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے 1960میں پاکستان انٹرنیشنل سکول جدہ کا قیام عمل میں لایا گیا، 1995میں پاکستان انٹرنیشنل سکول جدہ (انگلش سیکشن) کے نام سے ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا، اور ایک جوش وجذبے سے کیمرج کے معیار کی تعلیم فراہم کرنے کی تگ ودو شروع کر دی گئی، اس نئے سکول کی کارکردگی سے والدین، بچے اور سکول اساتذہ سب مطمئین تھے۔ یہ دونوں تعلیمی ادارے غیر منافع بخش تھے جو طلباء و طالبات سے موصول ہونیوالی فیسوں پر انحصار کرتے تھے۔
پاکستان انٹرنیشنل سکول جدہ انگلش سیکشن میں طلبہ وطالبات کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور سکول کی آمدن میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا، طلبہ کی تعداد اور آمدن میں اضافے پر سکول کی انتظامیہ نے آمدن میں خوردبرد شروع کر دی، اور طلبہ کی ماہانہ فیسوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ زرداری دور میں ایک خاتون سحر کامران جو زرداری کی منظور نظر تھی، اسے پرنسیپل بنا دیا گیا۔ سکول قوانین کے مطابق سکول کا انتظام پرنسپل کے ساتھ ساتھ پانچ چھ والدین پر مبنی سکول میُیجمنٹ کمیٹی SMC سنبھالتی ہے، یہ کمیٹی والدین کی طرف سے منتخب کی جاتی ہے۔ سحر کامران نے اپنے جاننے والے چند لوگوں کی SMC بنائی ہوئی تھی، جسکی ملی بھگت سے جدہ ایمبیسی قونصلیٹ کے ساتھ مل کر مالی خورد برد کرتی رہی، اور باقاعدگی سے فنڈز کی خردبرد کر کے ہر مہینے زرداری صاحب کو ایک موٹی رقم بھیجتی رہی، موصوفہ کئی سال اس سکول کی پرنسپل رہیں اور زرداری نے اسکی کارکردگی سے خوش ہو کر اسے پاکستانی سینیٹ میں سینیٹر بھی بنوا دیا۔
نواز شریف کی حکومت آنے پر ایمبیسیڈر نون لیگ کا آگیا اور اس نے اپنے کسی جاننے والے کرنل عدنان ناصر کو اپنی طرف سے اثر و رسوخ کی بنیاد پر بھاری تنخواہ اور دیگر مراعات کے عوض پرنسپل بنا دیا گیا اور اسکی ماہانہ تنخواہ تیس ہزار سعودی ریال رکھی گئی اور اس کی رہائش کیلئے انتہائی پوش علاقے میں ایک گھر کرائے پر لیا گیا، جس کا سالانہ کرایہ 136000سعودی ریال ہے۔ نئے پرنسیپل نے اپنے اللے تللے اور خوردبرد کے حصول کیلئے مالی بے ضابطگیوں اور میرٹ کے برعکس بھرتیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا اور بچوں کی فیسوں میں بار بار اتنا اضافہ کیا گیا کہ والدین کو ماہانہ فیسیں دینا مشکل ہوگیا۔ اس نے ایک ایسی فرضی SMC بنائی ہے جسکا صرف اسے پتا ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی اور کو انکا کوئی رابطہ نمبر یا نام بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان انٹرنیشنل سکول جدہ انگلش سیکشن میں 5000 سے زائد طلباء پڑھتے ہیں، ایک طالب علم کی فیس 800 ریال سے لیکر 1600ریال تک ہے، اس حساب سے صرف فیسوں کی مد میں سکول کی کل ماہانہ آمدن 6 ملین سعودی ریال بنتی ہے جو پاکستانی روپے میں بائیس کڑور روپے ماہانہ ہے، جبکہ بہتر ملین سعودی ریال یا پونے تین ارب پاکستانی روپے سالانہ ہے۔
پچھلے تین سال سے والدین پریشانی کی حالت میں پرنسپل کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے ایمبیسی جاؤ وہ بتائیں گے اور والدین ایمبیسی جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہمارا سکول سے کوئی تعلق نہیں ہے پرنسپل کے پاس جاؤ۔
سعودی عرب میں مظاہرے کرنے پر پابندی ہے، ایک دفعہ کچھ والدین نے سکول گیٹ پر مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پرنسپل نے پولیس بلوا لی جس وجہ سے والدین ڈپورٹ ہونے کے ڈر سے مظاہرہ ختم کر کے چلے گئے۔
والدین سکول کے مالی معاملات کا آڈٹ چاہتے ہیں کیونکہ کسی دور میں یہاں یورپین ٹیچرز پڑھاتے تھے اور سکول کا معیار بہت بلند تھا لیکن آجکل لوکل ٹیچرز ہیں اور ایک کلاس میں تیس تیس بچے بیٹھتے ہیں اور ٹیچر کے پاس ہر بچے کو انفرادی طور پر دینے کیلئے وقت نہیں ہوتا، اور پرنسپل ہر ممکن طریقے سے پیسے بچا کر قونصلیٹ کے ساتھ ملکر خورد برد کر رہا ہے۔
والدین نے سعودی عرب میں پاکستانی سفیر خان ہاشم بن صدیق اور جدہ قونصلیٹ جنرل شہریار اکبر خان کو کئی ای میلز لکھی ہیں لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شہریوں نے ’’سٹیزن پورٹل‘‘ کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو بھی شکایت کی ہے اس شکایت پر تحقیقات جاری ہیں، لیکن ابھی تک معاملات ویسے کے ویسے ہی چل رہے ہیں، اور متاثرہ والدین اور بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}