باغِ فدک کا معاملہ شیعہ سنی مسالک کے درمیان نزاعی مسئلہ ہے، اہل تشیع کے مطابق یہ باغ وراثت میں حضرت فاطمہ علیہ السلام کو ملنا چاہیے تھا مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جھوٹی احادیث کے زور پر باغ بیت المال میں جمع کر لیا. یوں صرف خلافت پر ہی قابض نہ ہوئے بلکہ وراثت پر بھی قبضہ کر لیا.
لمبی چوڑی بحثوں میں پڑنے کی بجائے اپنے آپ سے دو چار سمپل سوالات کر لیجیے اور اپنے ضمیر سے ہی جواب لے لیجیے. تاریخی روایات کو چھوڑیں، اللہ پاک کہتے ہیں و نفس وما سواہا فألہمھا فجورہا و تقواہا.. اللہ نے نفس بنایا اور اس میں نیکی اور بدی کی پہچان رکھ دی.. سوالات کچھ یوں ہیں:-
1. کیا حضرت فاطمہ علیہ السلام لالچی تھیں؟ کیا وہ اپنے باپ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محض ایک باغ کی وجہ سے ناراض ہو گئی تھیں؟
2. کیا ابوبکر نے باغ اپنے قبضے میں لے لیا تھا؟ ابوبکر، عمر، عثمان نے باغ کے پیسے سے اپنی جائیدادیں بنائیں؟
کیا وہ تینوں کرپشن اور منی لانڈرنگ کرتے رہے اور حضرت علی علیہ السلام خاموشی سے دیکھتے رہے؟ احتجاجی دھرنا تک نہ دے سکے؟ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کمزور تھے؟ ڈرپوک تھے؟ مصلحت پسند تھے؟ احتجاجاً زبان بھی نہ کھول سکے؟
کیا وہ تینوں کرپشن اور منی لانڈرنگ کرتے رہے اور حضرت علی علیہ السلام خاموشی سے دیکھتے رہے؟ احتجاجی دھرنا تک نہ دے سکے؟ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کمزور تھے؟ ڈرپوک تھے؟ مصلحت پسند تھے؟ احتجاجاً زبان بھی نہ کھول سکے؟
3. رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ساری زندگی اپنی بیٹی اور عزیز از جان دوست کی اتنی بھی تربیت نہیں کر سکے کہ وہ اختلاف پر متفق ہونا ہی سیکھ لیتے؟
4. اور پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے تب انہوں نے بھی فدک واپس نہیں لیا؟
حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو خلافت چھینی نہ ہی باغ چھینا، نہ ہی تینوں خلفاء اپنے اثاثے بناتے رہے..
پھر بھی اگر آپ کی دلی تسلی نہیں ہوتی تو یہ کتاب دیکھ لیجیے، کتاب کا نام “تحقیقِ فدک” مصنف ہیں سید احمد شاہ بخاری. اس کتاب کے باوجود بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ باغ فدک غصب کر لیا گیا تھا اور جید صحابہ کرام ایک پلاٹ کے لیے باہم دست و گریباں رہے تو آج چودہ سو سال بعد ہم جتنی مرضی بحث کر لیں فدک کا تصفیہ نہیں کر سکتے، سوائے اس کے کہ خاموشی اختیار کی جائے.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}