سادہ الفاظ میں کالم لکھنے کا رواج بہت کم ہے ۔ اکثر وزنی اور مشکل الفاظ لکھنےسےآہستہ آہستہ عام لوگ اُردو کو پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ زبان میں ترقی کی بجائے لوگ اِس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ آج ہم نے ایک ایسی بات چُنی ہے جس پر ساری دُنیا بنی ہے اور جاری و ساری ہے ۔ وہ ہے انسان کے پیدا ہونے کا عمل۔ یعنی مشرق اور مغرب میں عورت اورمرد کا جنسی ملاپ کے رشتے میں بندھنا اور رہنا۔ اِس پر کتابوں پہ کتابیں تحریر ہو چُکی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ آج مغربی ملکوں میں خیرسے مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے سیکس بھی قانون نے آزاد کر دیا ہے۔ آج ہم جو بات کرنے جا رہے ہیں وہ مغربی اور مشرقی معاشروں میں شادی یا سیکس میں تعاون یا سہولت کاری (ہیلپ) کا موازانہ ہے۔
مغربی ملکوں میں انسان کو ہر سہولت دینے کی پوری کوشش کی جاتی ہے ۔ جس میں زیادہ تر جسمانی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اورعلاج وغیرہ شامل ہیں۔ ذہنی ترقی، معاشرتی، خاندانی، نفسیاتی، سیاسی اور اجتماعی بہتری کیلئے بھی ادارےاورقانون بنائے گئے ہیں۔ انسان کی بنیاد، شادی یا سیکس، جس سے انسان اِس دُنیا میں آیا اور ساری زندگی اُسی عمل کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ اِسی لئے وہ فیملی بناتا ہے، پیسے کماتا ہے، اوربھی بہت کچھ کر گُزرتا ہے۔ آگے بچے شادیاں کرتے ہیں یا اورمختلف طریقوں سے یہ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اِس عمل کو مغرب والوں نے بالکل آزاد چھوڑ دیا ہے۔ زیادتی کو روکنے کے قانون تو موجود ہیں لیکن سیکس اُن بنیادی چیزوں میں شامل نہیں ہے جس معاشرتی یا حکومتی مدد پہ مغرب کو بہت فخر ہے۔ جبکہ مغربی ماہرین اِس بات کو بھی مانتے ہیں کہ روٹی کپڑا اورمکان کے بعد سیکس پہلی ضرورت ہے ۔
اگر غریب ملکوں کو دیکھا جائے تو وہاں روٹی کپڑا مکان ہو نہ ہولیکن یہ عمل جاری ہے۔ بچے پر بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ شادی ہال فُل بُک ہیں۔ سکنڈے نیوین ممالک سویڈن ناروے ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک اپنی طرف سے سیکس فری یا فری سیکس ممالک کہلاتے ہیں لیکن یقین کریں سیکس کو آسان کرتے کرتے اِن ممالک کے سب مرد عورتیں آپس میں سیکس کیلئے ایک دوسرے سے دُور ہوچُکے ہیں اورمشرقی، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے بے حساب اپنے جیون ساتھی لا رہے ہیں یا وہاں جا کر سیکس حاصل کرتے ہیں۔ اِس لئےنہیں کہ وہ مُلک غریب ہیں۔ اِس لئے کہ یورپ میں روائتی خاندانی نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جو اُن ممالک میں ابھی موجود ہے تو یہ سہولت وہاں آسانی سے دستیاب ہے۔ اِسی لئےمغرب میں ہم جنس پرستی کو قانونی مدد بھی دینی پڑی ہے۔ تاکہ لوگ کسی نہ کسی طرح زندہ تو رہیں۔ کیونکہ خودکُشی کی شرح بھی اِن ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ جسکی وجہ، مادی وجسمانی ضروریات وافر اور روحانی سکون کا فقدان ہے۔ اصل میں مغرب میں سیکس اپنی مدد آپ کے تحت والا عمل ہے ۔ اِسی لئے سیکس میں خود کی مدد کے اوزاوں کی بے شماردُکانیں بھی کھولنی پڑی ہیں۔ اُوپر سے عورت کو لباس کے بغیر کرکے اُس کو انسان کی بجائے ڈیکوریشن، بزنس اور مزے کی چیز کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
عورت پوری دُنیا کی طرح مغرب میں بھی مظلوم ہی ہے ۔ مشرق میں اُس پر مرد ظلم کرتا ہے۔ یہاں وہ خود اپنےآپ پہ ظلم کرکے آزاد ہے کیونکہ اُس کو سیکس میں عزت کے ساتھ کوئی مدد موجود نہیں۔ اُس کو اپنی مرضی اور آزادی سے سیکس کرنے کی پوری پوری اجازت ہے لیکن اُس کو سیکس کا تحفظ دور دور تک بالکل حاصل نہیں ہے جیسے ایک قدامت پرست معاشرے کی روایتی عورت کو مضبوط خاندانی نظام سے حاصل ہوتا ہے۔ مغربی عورت بھی اُسی خوف میں مبتلا ہے جس میں مشرقی عورت مبتلا ہے کہ نہ جانے میرا جیون ساتھی کیسا ہو؟ یا مجھے اچھا جیون ساتھی کہاں سے ملے گا ؟ مرد کا دِل بھر گیا تو میں کیا کروں گی؟ اِس طرح کے کئی خدشات نے ہر جوان لڑکی کو گھیرا ہوا ہوتا ہے ۔مشرق میں ایک شادی شُدہ شوہر والی عورت کو گھر چلانے اور بچے پالنے کیلئےکمائی کا کم فکر ہوتا ہے لیکن مغرب میں وہ بھی سو فیصد عورت کو خوشی سے یا مرضی کے خلاف خود کرنا پڑتا ہے۔ مرد کمائی کرتا ہو یہ دونوں معاشروں میں ضرور دیکھا جاتا ہے۔ اکثر لڑکیوں کوزیادہ پیسے والےاور خوبصورت مرد پسند آتے ہیں لیکن وہ مرد اکثر پیسےاور پُرکشش ہونے کی وجہ سے دوسری لڑکیوں کے چکر میں پڑجاتے ہیں ۔
مغرب نے عورت کو مرضی سے کام اور سیکس کرنے کی آزادی تو دے دی لیکن اُسکوبُرے مرد ساتھی کےخوف سےنجات نہ مل سکی۔ لڑکیاں اِتنی آزاد ہونے کے باوجود لڑکوں سےعارضی اور مستقل تعلقات بناتے گھبراتی ہیں۔ اُن کو اِس سوچ میں سے ایک سوچ پہ چلنا پڑتا ہے کہ جو ملے یا اچھا لگے اُس سے سیکس کرو یا ایک اچھا ملےجو فیملی بنائے۔ ایسی ہی سوچ میں مغربی مرد بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ بے شک مرد اِس آزادی کی وجہ سے عورت بدل بدل کر عورت کا جنسی استحصال زیادہ کرتے ہیں۔ اُوپر سے سب دیکھتے ہیں کہ روز جوڑے ٹوٹ رہے ہیں ۔ بچے کسی ایک کے پاس یا دونوں ماں باپ کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں۔ یہ عارضی سیکس کی سوچ کا ہی نتیجہ ہے ۔ ایک رات کی ہو یا چند مہینوں کی یا چند سال کی۔ مستقل تحفظ کوئی نہیں ۔
ماں باپ جوان بچوں کو جیون ساتھی یا محفوظ سیکس کا ساتھی ڈھونڈ کر دیں یہ تصور تو مغرب میں مکمل طورپہ ختم ہو چُکا ہے۔ البتہ مغرب میں مقیم مشرقی ماں باپ اب بھی یہ کوشش کرتے ہیں اور اُن کے جوان بچوں کو اگربچےچاہیں تو یہ سہولت ابھی تک حاصل ہے۔ مشرق کی طرح یہاں بھی ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے یا بچی کی مناسب عمر میں شادی ہو جائے۔ شادی یا ساتھ رہن (Sambo: living together as sex partner) یا دُور رہن (Särbo: living apart as sex partner) کو کامیاب کرنے یا ناکام ہونے کو مغرب میں اِتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ مجھے ایسے ایسے سویڈش مردوں اور عورتوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جنھیں ساری زندگی کوئی ساتھی ملا نہ کوئی سیکس پارٹنر۔ ایسی ایسی جوان لڑکیوں اور لڑکوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو شرمیلے یا احساسِ کمتری کی وجہ سے سیکس یارشتہ قائم نہ کرسکے یا اُن کو کسی نے دھوکہ دے کر جنسی زبردستی کر لی۔ میرے جاننے والوں میں ایسی تین نوجوان لڑکیوں نے خود کُشی کی ہے۔ بے شک ایسے لوگوں کی تعداد تھوڑی ہے لیکن اِس آزادی کی وجہ سے سیکس میں بے ربطگی اور غیر توازن ہے۔ کسی کو بے شمار سیکس مل رہی ہے ۔ کسی کو کچھ بھی نہیں۔ کوئی ساحل میں ننگے لیٹے لوگوں کے درمیان میں جذبات کو دبائے اکیلا یا اکیلی گھوم رہی ہے۔ کوئی روزانہ نئی لڑکی یا لڑکے کے ساتھ سو رہا ہے۔
اگرچہ پوری دُنیا میں لڑکیوں کو سیکس حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ۔ اُن کے ایک اشارے پہ کئی مرد اور لڑکے سیکس کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ مرد کتنا محفوظ یا عارضی ہو؟ اِس خوف کی وجہ سے لڑکیاں اپنے آپ کو محدود رکھتی ہیں۔ ڈسکو یا بار میں جا کر تھوڑا مدہوش ہو کرلڑکے لڑکیاں مرد عورت بس آج کی رات مزا لے لے کی سوچ سے سیکس کرتے ہیں ۔ اِس سے عارضی جسمانی ضرورت تو پوری ہو جاتی ہے لیکن محبت اور روح کا سکون نہیں ملتا۔ صبح اُٹھتے ہی وہ خالی پن کا احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ تو ہو گیا ہے لیکن اندر کی تنہائی ختم نہ ہوسکی۔ اِس بات کی گارنٹی بھی نہیں کہ ہر دفعہ ڈسکو یا بار میں جانے سے کوئی مناسب عارضی سیکس کرنے کیلئے مل ہی جائے گا۔
مغرب اور مشرق بلاوجہ سیکس کے معاملے میں ایک دوسرے پر نالاں ہیں ۔ حالانکہ یہ تو ساری دُنیا کی یکساں ضرورت ہے۔ مغرب میں بھی بچے چھوٹی عمر میں بلوغت کی عمر تک یا پہلے ہی سیکس شروع کر دیتے ہیں لیکن مشرق والوں میں کم عمری کی شادی پر مغرب والےسخت خلاف ہیں۔ عورت کو ننگا کر کے کُھلا چھوڑ دیا ہے اور مرد کو کہا بیٹا تہذیب سیکھو برداشت سیکھو۔ ٹھیک ہے عورت کی بے حرمتی ہر گز نہیں ہونی چاہیے تو بھائی پھرمستقل روٹی کپڑا مکان میڈیکل اور تعلیم کے ساتھ ساتھ عورت مرد کو مستقل سیکس کا بھی تحفظ دو جو کہ تم نے خاندانی نظام کو تباہ کرکے ختم کردیا ہے۔
سوشل کے محکمے کو یورپ میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیوں میں اُن کے بچوں کے معاملات تک جا کر بہت کچھ کر جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ شادی شدہ یا سیکس پارٹنر کی سیکس میں آسانی اور زبردستی پر بھی کنٹرول کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سوشل والےسیکس آفس بھی کھول لیں جہاں ہر وقت شادی یا متاع یا سیکس پارٹنرہر وقت یقینی موجود ہو۔ پڑھنے میں آیا ہے کہ ڈنمارک والوں نے معذور افراد کی جنسی تسلی کیلئے سیکس ورکر کا حکومتی خرچ پہ انتطام کیا ہے۔ سویڈن کے علاوہ دوسرے مغربی ممالک میں یہ کام سیکس ورکر لڑکیاں کرتی ہیں۔ جو ایک معاوضے کے بدلے مردوں کو سیکس فراہم کرتی ہیں۔ حیرانگی کی بات ہے کہ آج تک انسانی تاریخ میں یہ کام بھی صرف عورت نے ہی سنبھالا ہوا ہے یا اُسکو زبردستی اِس کام میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن یہ تو سیکس کی بنیادی ضرورت پوری کرنےکا گندا ترین اورکسی معاشرے کی بے بسی کا نہایت نچلے درجے کا حل ہے۔ مزے کی بات ہے کہ معاوضہ سیکس کو ہرمعاشرے کےکم سے کم باشعور لوگوں میں بھی بُرا ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن فاسٹ فوڈ معاشروں نے سیکس کو بھی ایک فاسٹ فوڈ بنا کر رکھ دیا ہے۔
اب ذرامشرقی معاشروں کو دیکھیں۔ اُن معاشروں میں بھی عورت پر ظلم توبہت ہوتے ہیں۔ عورت کو مرد اورخود عورت ذات سےدونوں کے ظلم سہنے پڑتے ہیں لیکن زیادہ تر مرد پر صرف مرد ہی بدمعاشی کرسکتا ہے ۔ خاندانی نظام وہاں تما م خرابیوں کے باوجود ابھی کافی حد تک چل رہے ہیں۔ اگرچہ مغرب کی دیکھا دیکھی وہاں بھی خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ غربت اور کرپشن کی وجہ سےمعاوضہ سیکس بھی بڑھ رہا ہے۔ اُن معاشروں میں بھی مالی غیر تحفظ کی وجہ سے امیر اور غریب میں مادہ پرستی کا رجحان بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اب شادیاں ہونے میں کافی مشکلات ہیں اور ناکام بھی بہت ہو رہی ہیں۔ ہر کوئی صرف مالی تحفظ کی تلاش میں ہے۔ لیکن اب بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنی پُرانی روایات کے مطابق رہ رہے ہیں۔ ماں باپ بہن بھائی رشتہ داریا دوست احباب اپنے بچوں کو جیون ساتھی یعنی محفوظ سیکس پارٹنر حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ یہ کام نہایت عزت ،محبت اور اچھے الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ شادی کے بعد بھی ہرقریبی اِس تعلق کو قائم رکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ سب کے ذہن کے اندر دُور کہیں یہ تصورموجود ہوتا ہے کہ یہ کائناتی قدیمی جسمانی روحانی وخاندانی تحفظ ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔ روٹی کپڑا کم ہو جائے لیکن یہ کم نہ ہو۔ یعنی مرد عورت کا گلے ملنا یا گلے پڑنا ہر صورت میں قائم رہنا چاہیے۔
اِس سے تھوڑا پیچھے جائیں یا آج بھی کئی خاندانوں میں روٹی کپڑا مکان اور مرد کے روزگار کو بالائے طاق رکھ کربچوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ مشرقی پُرانے سیانے لوگ مغرب سے زیادہ سیکس کو جانتے ہیں ۔ وہ مشینوں سے زیادہ انسانوں کو سمجھتے ہیں۔ وہ جسمانی خوشی کی بجائے آج بھی روحانی خوشی کو ترجیع دیتے ہیں۔ صاف ستھرے رشتوں اور محبت کے بغیرسیکس ایسے ہی ہے جیسے ایک مشین کو دوسری مشین کے ساتھ جوڑ دیا جائے لیکن اُن میں بجلی فراہم نہ کی جائے یا کمپیوٹرتوہولیکن اُس میں سافٹ ویئرکوئی نہ ہو۔ مغرب اور مشرق کے انسانوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کی اَشد ضرورت ہے۔ مشرقی اقدار میں بچوں کی شادی میں مدد کو قائم رہنا چاہیے اور زبردستی شادیوں کا ظلم وہاں سے ختم ہونا چاہیے۔ بچوں کی اپنی پسند یا ماں باپ کے ڈھونڈے ہوئے جیون ساتھی کو برابرکی عزت ملنی چاہیے۔ شادی ارینج ہو یا محبت کی، دونوں صورتوں میں شادی کی کامیابی وخوشی باہمی سمجھوتے، پیار اور قربانی پر منحصر ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر میاں بیوی محبت بھری سیکس کو اول درجہ دیں اور اِس کورشتے کی بنیاد سمجھیں تووہ ایک محفوظ رشتے میں بندھے رہیں گے۔ لوگ بھی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ سیکس میں کیا کیا شامل ہے اب اِس پہ ایک نیا مضمون لکھنا پڑے گا۔ یہاں ایک اَکھڑ ذہن کےدوست سلیم عرف چھیما کا مزیدارواقعہ سُناتا ہوں۔ اُس کی ساس جب بھی اُسکے ہاں آتی اپنے داماد اور اُسکے گھر کے لوگوں کے رہن سہن پہ لمبی تنقید کرتی۔ داماد سکوٹر مرمت کی معمولی سی دُکان چلاتا تھا۔ جب ایک بچہ ہونے کے بعد اُسکی بیوی ماں کی طرف گئی توماں نے اُسکو روک لیا کہ میری بیٹی کو یہ یہ سہولیات فراہم کرو تو اُس کو واپس بھیجوں گی ۔ دو چار مہینے گُزر گئے۔ جب بھی چھیما بیوی کو لینے جاتا ساس سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی اور خوب سُناتی۔ وہ واپس آجاتا۔ مجھ سے بار بار کہتا۔ یار شادی ہو گئی ہے۔ منہ کو خون لگ گیا ہے اب رہا نہیں جاتا بیوی کے بغیر لیکن میں سسرال کے دباؤکے نیچے ہر گز نہیں لگ سکتا۔ ایک دِن اُس نے ایک دوست سے پستول لیا اور سسرال کے گھر جا پہنچا۔ اندر داخل ہوتے ہی اُس نے چھت کیطرف کرکے ایک فائر کیا۔ ساس بھاگ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی باقی لوگ بھی اِدھر اُدھر چُھپ گئے ۔ اُس نے ایک دو فائر اور کئے تو بیوی نظر آئی تو بولا ، توں پرےہو جا تینوں دوسری پستول نال ماراں گا۔ سسرال کو بولااگر کوئی میری بیوی کو لینے آیا تو گولی مار دوں گا۔ بیوی کو بازو سے پکڑا، بچے کو لیا اورسکوٹر پر اپنے گھر لے آیا۔ اچھی طرح رات گزارنے کے بعد بولا تم کو کیا تکلیف ہے میرے ساتھ۔ بیوی بولی وہ تو ایسے ہی میری ماں کہہ رہی تھی۔ میں تو راضی ہوں۔ وہ دِن اورآج تک میاں بیوی پھرنہیں لڑے اور نہ ساس نے کبھی اُن کی زندگی میں دخل دیا۔
نہ کوئی پولیس کیس ہوا نہ سوشل والے آئے۔ یہ تھا کائناتی باہمی تحفظ کا قدرتی دیسی پنجابی حل۔ اگر ایسا یورپ میں ہوتا تو بندہ دو سال کیلئے جیل میں بیٹھا ہوتا۔ مغرب والوں کو بھی مشرق سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ جس طرح وہ کیمیکل کے بغیرکھانے پینے اور رہن سہن کے قدرتی طریقوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اِسی طرح اُن کو مشرق سے پُرانے سیانے لوگوں کو یہاں بُلا کر اُن سےقدرتی محبت بھرے خاندانی نظام کو سیکھنا پڑے گا۔ تاکہ وہ سہی معنوں میں ایک سیکس فری یعنی مکمل ویلفیئر سوسائٹی بشمول سیکس گارنٹی کہلا سکیں، پُرانے مشرقی نظام کی طرح۔
ایاؔز حمزہ ۳ ِجون ۲۰۱۷ ء