یروشلم یعنی وہ شہر جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان مقدس زمین کے طور پر جانتے ہیں، لیکن یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس قدیم شہر کے ایک علاقے کا تعلق انڈیا سے ہے۔
یہ دراصل ایک سرائے ہے۔ صوفی بزرگ بابا فرید نے تقریباً آٹھ سو برس قبل اسی سرائے میں قیام کیا تھا۔ اس سرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں وہ عبادت کیا کرتے تھے۔
گذشتہ سو برس سے اس سرائے کی دیکھ بھال انڈیا کا ایک خاندان کر رہا ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں کا تعلق انڈین ریاست اترپردیش کے سہارن پور شہر سے تھا۔
یروشلم کیسے آئے بابا فرید
آٹھ سو برس سے بھی زیادہ پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے پہلے اس شہر پر مسحیوں کی حکومت تھی۔
صلاح الدین ایوبی نے اس شہر کو اسلامی ماحول دینے کے لیے صوفیوں اور درویشوں کو اس شہر میں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی۔
یہاں آنے والے صوفیوں میں سے ایک بابا فرید بھی تھے۔ انڈیا اور پاکستان کے پنجاب میں ان کے ہزاروں مرید ہیں۔
بابا فرید لمبے عرصے تک اس شہر میں رہتے رہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ یہاں سے انڈیا کب واپس لوٹے۔
ان کی واپسی کے بعد صدیوں تک انڈیا سے حج کے لیے جانے والے افراد راستے میں بابا فرید کی سرائے میں رک کر کچھ دن گزارتے تھے۔
یروشلم کے مفتی نے دعوت دی تھی
یہ سلسلہ پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا۔ اس درمیان مسجد اقصیٰ اور شہر کی دوسری اسلامی عمارتوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔ ان دنوں عرب ممالک بھی غریب تھے۔ اگر دولت تھی تو بھارتی نوابوں اور سلطانوں کے پاس۔
اسی لیے سنہ 1923 میں یروشلم کے مفتی نے کچھ افراد کو انڈیا رقم لینے بھیجا۔ انڈیا کی آزادی کے لیے لڑنے والے محمد علی جوہر نے اس کام میں ان کی مدد کی۔
مفتی نے یہ بھی کہا کہ بابا فرید کی سرائے کی دیکھ بھال کے لیے انڈیا سے کسی کو بھیجا جائے۔
اس طرح سنہ 1924 میں نذیر حسن انصاری نام کے ایک نوجوان کو اس کام کے لیے یروشلم بھیجا گیا جہاں جا کر انھوں نے اس سرائے کی دیکھ بھال شروع کر دی۔
کچھ عرصے بعد انصاری نے ایک فلسطینی لڑکی سے شادی کر لی اور یروشلم کے ہو کر رہ گئے۔
مشہور ہستیوں کی تصاویر
جب میں پرانے شہر میں واقع اس انڈین سرائے پہنچا تو انصاری کی دو پوتیوں نے میرا خیرمقدم کیا۔ دونوں بہنیں، ان کے شوہر اور ان کے بچے ابھی بھی اسی سرائے کے اندر رہتے ہیں۔
سرائے میں داخل ہونے کے لیے ایک بڑا پھاٹک ہے۔ داخل ہونے کے تقریباً سو قدم چلنے کے بعد ایک لوہے کا گیٹ آتا ہے جس پر تالا لگا تھا۔
دونوں بہنوں نے تالا کھولا اور مجھے اندر آنے کی دعوت دی۔ اندر ایک بڑا احاطہ ہے جس کی داہنی طرف ایک پرانی مسجد ہے۔
بائیں طرف ایک کمرا تھا جس میں انڈیا سے آنے والی بڑی ہستیوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔
تصاویر والا کمرا
انصاری خاندان نے سرائے سے متعلق نایاب اشیاء ایک کمرے میں سجا رکھی ہیں۔ ان میں پہلی جنگ عظیم میں یروشلم میں تعینات انڈین فوجیوں کی تصاویر بھی ہیں۔
قدیم یروشلم کی عمارتوں کی تصاویر ہیں۔ ان کے علاوہ نذیر انصاری کے جوانی کے دنوں کی تصاویر بھی ہیں۔
ان کا انتقال اسی سرائے میں سنہ 1951میں ہوا تھا۔ اب ان کے صاحب زادے یعنی ان دونوں خواتین کے والد اس سرائے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
ان کی عمر 80برس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ جب میں وہاں پہنچا اس وقت وہ اردن گئے ہوئے تھے۔
اس کے بغل میں اس کمرے کا دروازہ ہے جہاں بابا فرید رہا کرتے تھے۔
تہہ خانے میں عبادت
وہ کمرا جس میں بابا فرید رہا کرتے تھے وہ کافی چھوٹا ہے۔ لیکن شاید بابا فرید کو اس سے بڑے کمرے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بیشتر وہ اس کمرے کے تہہ خانے میں عبادت کیا کرتے تھے۔
دونوں بہنوں میں سے چھوٹی بہن نور جہاں نے مجھے بتایا کہ ’دادا بتاتے تھے کہ بابا فرید ایک بار میں 40 دنوں تک لگاتا اس تہہ خانے میں بند ہوکر عبادت کیا کرتے تھے۔‘
بابا فرید کے نجی استعمال کی کوئی چیز اس تہہ خانے میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ان کی یادیں اور ان سے وابستہ داستانیں اس سرائے اور اس شہر میں آج بھی سنائی جاتی ہیں۔
اس سرائے پر انڈیا کا مالکانہ حق ہے۔ آج بھی اس جگہ کو دیکھنے کے لیے انڈیا سے نامی ہستیاں آتی ہیں۔ انڈیا سے آنے والوں کے لیے یہاں چھ کمرے بھی ہیں جن میں وہ قیام کر سکتے ہیں۔
یروشلم میں کئی جنگیں ہوئیں اور یہ شہر کئی بار اجڑا۔ لیکن انڈیا اور بابا فرید سے منسوب یہ کونا 800 سال بعد بھی آباد ہے۔َ