ہمیں خود جائزہ لینے کی ضرورت ہے ایک ایسے منتشر ، منقسم اور بے انصاف معاشرےکو کیا اپنے حکمران پر تنقید کا حق ہے؟
کیا ہم میں سے ہر فردخود کرپٹ نہیں؟ کیا ہم خود دوسروں کے ساتھ انصاف کرتے ہیں؟ دفتر میں کام کرنے والے آفس بوائے سے لیکر دفتر کے بابو کیا اپنا کام دیانتداری سے کرتے ہیں؟کیا سکول میں پڑھنے والے بچے کو اکیڈمی میں پڑھنے کے لئے کہنا استاد کی کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا مسجد میں تدریس وامامت کے فرائض ادا کرنے والے مولانا کے خود ساختہ فتوے کرپشن اور بے ایمانی کی زد میں نہیں آتے؟ کیا کرپٹ لوگوں کو اسمبلی میں بھیجنا عوام کی کرپشن نہیں؟
کیا حاجی صاحب کا دوکان پر ناجائز منافع کرپشن نہیں؟ بائیس کروڑ عوام میں سے صرف سات لاکھ کا ٹیکس دینا کرپشن نہیں کیا؟ معالج کا سرکاری ہسپتال سے اپنے پرہیوٹ کلینک پر مریض کا بھیجنا کرپشن نہیں کیا؟ جج کا ملزمان سے پیسے وصول کر کے ان کے حق میں فیصلے کرنا کرپشن نہیں کیا؟ وکیل کا موکل سے پیسے لیکر غیر ضروری طوالت دینا کرپشن نہیں کیا؟ دین میں فرقوں کا رائج ہو جانا کرپشن نہیں کیا؟ بھائی کا بہن کی زمین پر قبضہ کر لینا کرپشن نہیں کیا؟
پاکستان آرمی کا حکومت بنانے اور گھر بھیجنے کا عمل کیا کرپشن کی عملی تصویر نہیں؟ ثاقب نثار کا سوموٹو کرپشن سے مبرا کیسے ہو سکتا ہے؟
جی جناب ہر فرد کرپٹ ہے رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں جو مہنگائی کا طوفان آئے گا وہ عمران خان کہے گا یا نوازشریف کہتا تھا؟ ہر چیز میں کیڑے نکالنا اور حکمرانوں کو ہر خرابی کے لئے مورد الزام ٹھہرانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے حکمران نہیں ہم خود کرپٹ ہیں منفی سوچ معاشرے میں سرائیت کر چکی ہے ۔
نہیں جناب خود کو بدلیں خود کرپشن چھوڑیں پھر حکمرانوں کے گریبان پکڑیں۔
427
تنقید برائے تنقید
ڈاکٹر جاسم ارشاد چٹھہ