Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
249

چہرے اور معاشرے۔

چہرے اور معاشرےہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ قتالہ عالم ’’ہیلن آف ٹرائے‘‘ کتنی خوب صورت تھی یا پرتھال کو دیکھ کر انسان سچ مچ سانس لینا بھول جاتے تھے یا یہ سب افسانہ ہی ہے، لیلیٰ نے شب ہجر یا شب وصال جیسی ہونے کے باوجود قیس کو مجنوں کر کے نجد کے صحرائوں میں آوارہ کردیا یا یہ کالی کلوٹی مجھے اور آپ کو بھی قیس کی طرح دیوانہ کردیتی۔

 حارث شاہ جی نے ہیر کا حلیہ لکھ کر حسن و جمال کے بیان کی حدود سے نکال دیا لیکن کیا وہ واقعی اتنی سحرانگیزتھی کہ رانجھے کو رانجھا کر گئی لیکن اور کسی نے اسے کبھی آنکھ اٹھا کر یا آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھا ورنہ دو چار تو اور بھی گھائل کئے ہوتے۔ اسی طرح سسی نے جو پنوں کےساتھ کیا یا سوہنی نے جو حال مہینوال کا کیا، کسی اور کے ساتھ کیوں نہ ہوا؟ 
شیریں کیلئے نہر کی کھدائی میں فرہاد کے علاوہ کسی اور نے تیشہ کیوں نہ اٹھایا، شیریں صرف فرہاد کیلئے ہی اتنی شیریں کیوں تھی؟یہ سب اور دیگر ایسے بیشمار کردار ’’کیمرے‘‘ سے پہلے کہیں پہلے کے کردار ہیں سو وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ رنگ میں رنگ آمیزی، نثر میں شاعری اور ’’ممکن‘‘ میں مبالغہ کتنا ہے لیکن بھلا ہو، خیر ہو کیمرے کے موجد جنت مکانی خلد آشیانی کی جو ہمارے وقتوں کی ہیلنوں، ہیروں، لیلائوں اور سوہنیوں کو ہمیشہ اور ہمارے لئے محفوظ کر گیا۔ 
آج ہم ان کی شکل و صورت، قد کاٹھ، رنگ روپ، چال ڈھال، حرکات و سکنات، نشست و برخاست، انداز اور آواز وغیرہ کے عینی شاہد ہیں اور اک عالم اس پر اتفاق کرتا ہے کہ مدھوبالا حسن مشرق اور مارلین منیرو حسن مغرب کی دو ابتدائیں ہی نہیں انتہائیں بھی ہیں۔ آپ چاہیں تو عدم اتفاق کے بعد ان کے نام لے دیں جنہیں آپ خوبصورت ترین سمجھتے ہیں، میں بغیر کسی بحث کے آپ کی پسند تسلیم کرلوں گا کہ میرا اصل مقصد کچھ اور ہے۔ضمناً عرض ہے کہ حسن و جمال صرف خواتین تک محدود نہیں، مردوں تک لامحدود ہے تو اس سلسلے میں ذاتی طور پر میرے نزدیک کیمرے کے بعد کی تاریخ میں ہمارے سنتوش کمار اور امریکنوں کے کلارک گیبل سے زیادہ خوبصورت وجہیہ مرد ریکارڈ پر موجود نہیں۔ 
پاکستان کے پہلے میگا سٹار سنتوش کمار میرے توفیورٹ ترین تھے ہی، عشروں پہلے میں نے بھارت کے فریدوں ایرانی کا اک انٹرویو ریڈیو پر سنا جس میں یہ عظیم کیمرہ مین کہہ رہا تھا ’’پاکستان کے سنتوش کمار کا چہرہ ہالی وڈ سے لیکر ہم تک، سینما تاریخ کا وہ واحد چہرہ ہے جسے ’’پرفیکٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ جہاں چاہو کیمرہ رکھ کر اسے ایکسپوز کر لو وہ خوبصورت ترین دکھائی دے گا ورنہ ہر انسانی چہرے کا کوئی نہ کوئی اینگل کمزور ضرور ہوتا ہے‘‘……بہرحال کلارک گیبل مجھے ویسے ہی پسند تھا لیکن……قارئین!آپ اپنی اپنی پسند کے چہرے چن لیں کہ بحث اپنے اپنے پسندیدہ چہروں کی نہیں، آپ مدھوبالا، مارلین منیرو، سنتوش کمار یا کلارک گیبل کی بجائے اور کی تصویریں اپنے سامنے رکھ لیں کہ اصل مقصد اس تمام ایکسر سائز کو نتیجہ خیز بنانا ہے۔ 
آپ کی سہولت کیلئے ایک قدم آگے جاتے ہوئے آپ چاہیں تو اپنی پسندیدہ مردانہ، زنانہ، تین تین تصویریں سامنے رکھ لیں، یہاں تک کہ سلطان راہی مرحوم بھی آپ کے پسندیدہ ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔اپنے اپنے، تین تین پسندیدہ مردانہ زنانہ چہروں کی تصویریں سامنے رکھ کر آپ معصومانہ قسم کی ٹمپرنگ شروع کریں اور وہ کچھ اس طرح کہ مدھو بالا کے ہونٹ مارلین منیرو اور مارلین کے مدھو بالا کے چہرے پر لگا دیں، مدھو بالا کی ایک آنکھ صرف ایک سوتر چھوٹی کردیں تو دوسری طرف مارلین منیرو کا ایک کان یا ایک پلک غائب کردیں، کلارک گیبل کی مونچھیں سنتوش کمار کے اوپری ہونٹ پر رکھ دیں ور سنتوش صاحب کے ہونٹ کلارک گیبل کو ادھار دیدیں…… انڈین سینما کے سب سے بڑے لیجنڈ دلیپ کمار کے بدن کو آج کے انڈین سپرسٹار سلمان خان کے کسرتی بدن کے ساتھ تبدیل کردیں تو کیسا لگے گا؟
چلو کچھ اور انداز میں دیکھتے ہیں……عمران خان بھٹو کی آواز میں بول رہا ہو، بھٹو قائداعظم محمد علی جناح کے لہجہ میں مخاطب ہو اور مولانا فضل الرحمٰن بلاول کی آواز، انداز اپنا لیں……انسانوں کو چھوڑیں،عمارتیں ہی دیکھ لیں کہ اگر تاج محل کاگنبد مسجد وزیر خان اور مسجد وزیر خان کا بادشاہی مسجد لاہور پر رکھ دیا جائے تو کیسا لگے گا؟ برج العرب یا بر الخلیفہ وہاں سے اکھاڑ کر دو موریہ پل کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے تو منظر کیسا ہوگا؟ میر تقی میر کے 25فیصد شعر اقبال کی اور اقبال کے بھی اتنے ہی میر کی شاعری میں گھسا دیئے جائیں تو دونوں کی شاعری کیسی لگے گی؟ ایسا ہی تجربہ منیر نیازی اور احمد فراز کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ استاد اللہ بخش، شاکر علی اور صادقین کا کاک ٹیل کیسا رہے گا؟ 
نصرت فتح سے کہتے احمد رشدی کا ’’کوکو کورینا‘‘ گائے اور استاد بڑے غلام علی سے فرمائش کی جاتی کہ ذرا ’’آفریں آفریں‘‘ یا ’’کیسے دا یار ناں وچھڑے‘‘ تو گا کر سنایئے۔حضور!یہ سب ’’ظلم‘‘ کی مختلف کیٹیگریز ہیں۔ ایش ٹرے سونے کی بھی ہو، اس میں پانی، چائے، شربت، وہسکی ڈال کر پینے والا ظالم کہلائے گا اورپیالہ مٹی یا معمولی لکڑی کا بھی ہو، اس میں سگریٹ بجھانے والا بھی ظالم ہوگا کہ یہی ظلم کی صحیح DEFINATIONہے۔انسانی معاشرے بھی ایسے اور اسی طرح ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اپنی تاریخ، اپنی اپنی دنیا، اپنا اپنا مزاج اور کیریکٹر ہے۔ 
جو کسی اور کو سوٹ کرتا ہے، ضروری نہیں ہمیں بھی سوٹ کرے لیکن ہم تو نہ تیتر نہ بٹیر، نہ کوے نہ ہنس، نہ گدھے نہ گھوڑے…… عجیب و غریب معاشرہ ہے جو نہ اسلامی نہ سیکولر نہ زرعی نہ جاگیرداری، نہ صنعتی نہ غیر صنعتی، نہ پسماندہ نہ ترقی یافتہ، نہ جدید نہ قدیم، نہ تعلیم یافتہ نہ جاہل، نہ مغربی نہ مشرقی، نہ توہم پرست نہ توہم شکن، نہ بھوکا نہ رجا ہوا…. کوئی تو ہو جو اسے کوئی چہرہ دے….. بے سمت ہجوم کو کوئی سمت دے، بلاعنوان داستان کو کوئی عنوان دے، دکھاوے کی نہیں حقیقی شناخت دے۔انتہائے ستم کہ سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہےکبھی کبھی سوچتا ہوں زرداری یا نواز ٹائپ عظیم لیڈرز اپنے فیورٹ ترین مشاغل لوٹ مار وغیرہ چھوڑ بھی دیں تو کیا یہ سب کچھ کر سکنے کے قابل ہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں