Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
276

بچوں کی تعلیم و تربیت بذریعہ ہوم سکُولنگ – قسطِ اول

روزمیری وارڈ لبری نام کی یہ 60 سالہ بوڑھی امریکن خاتون اب میڈ فورڈ (نیو جرسی) میں مقیم ہیں۔ پہلے یہ فلے ڈیلفیا میں رہا کرتیں تھیں۔ مشہور آن لائن میگزین Quora Digest پر اس عظیم خاتون کے تعارف میں جلی حروف میں لکھا ہے:

 چیمپئین ہوم ایجوکیٹر آف فورسکالرز 

یعنی Rosemaryاپنے چار بچوں کی کامیاب ہوم سکولنگ کرنے، انہیں فی الواقع ‘سکالرز’ بنا کر اس competitive worldکے پلیٹ فارم پر لانچ کرنے، انہیں بہ صد اعتماد اپنے اپنے فیلڈ میں تگ وتازِ حیات کرنے کے قابل بنانے کا سو فیصد کریڈٹ لیے ہوئے ہیں۔ یہ خاتون، عمومی امریکن کلچر کے برعکس، اِس اعتبار سے بھی ایک سُوپر کامیاب اور خوش قسمت خاتون ہیں کہ اپنے اولین، پہلے، واحد شوہر کیساتھ ایک ہی شادی کی گاڑی پر سوار عمر ِعزیزکا یہ پُل عبور کیے بیٹھی ہیں۔اِس کا کریڈٹ بھی بظاہر انہی کو جاتا دِکھائی دیتا ہے کہ اِن کے ہَز بینڈ کی کوئی contact details ہمیں سرِ دست دستیاب نہیں۔

خیر، Quora ڈائجسٹ پر جب کوئی صاحب سوال پوسٹ کرتے ہیں تو اُس کے لیے ایکسپرٹ آنسر لکھنے والوں میں روز میری کا شمار خاص ماہرین میں ہوتا ہے۔ یہ اب تک 723 جوابات لکھ چکیں، اور اِن کے ایکسپرٹ آنسرز کے views لاکھوں میں ہیں۔

اب چونکہ یہ ایک رول ماڈل ہیں، اور تربیتِ اطفال کے باب میں بہاؤ کی مخالف سمت چل کر دکھاچکیں، اِن کی رائے قابلِ صد احترام ہونی چاہئیے کہ جو کچھ کہا یا بولا جاتا ہے، وہ اِن پر بیت گیا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسی moms اور ایسے dads کی اب اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو اِس تجربہ کو مزید سندِ تصدیق فراہم کرتی ہے۔ خود امریکہ میں اس گزرتی ساعت کوئی دو ملّین یعنی 20 لاکھ بچے ہوم سکولنگ کےتجربے سے گزر رہے ہیں (جہاں ہوم سکولنگ کو باقاعدہ سرکاری طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور اس سے متعلق کافی حد تک sources ساور پورٹ خود سرکار مہیا کرتی ہے)۔ امریکہ کے طول و عرض میں ایسی بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں جِن پر لکھے – دیگر والدین کے لیے مینارہِ نور بنے – سینکڑوں بلاگز بہ آسانی دستیاب ہیں ۔

  

ہم بتدریج ایک پروگرام کی طرف بڑھیں گے جِس کی خاطر یہ بیک گراؤنڈ دینا بے حد اہم تھا (اور اہم رہے گا کہ بعد کی اقساط میں بھی بیک گراؤنڈ والی تفصیل مزید آئے گی)۔ یہ میرا ایک پراجیکٹ تھا جس کے خدوخال اب مکمل ہو چکے ہیں، اور جس کے لانچ ہونے سے قبل اِس کی تفصیل کا یوں شیئر کیے جانا اس لیے ضروری ہے کہ جس کسی کو بھی ناچیز کا ہمرِکاب ہونا ہے، ساری بات خوب تفصیل میں سمجھ لے۔

روز میری وارڈ لبری کی ایک پوسٹ کیمطابق (نیز گوگل کرنے سے بھی یہ انفارمیشن بہ آسانی دستیاب ہے) امریکہ کے نیشنل ہوم ایجوکیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے جب سروے کیا کہ آیا ہوم سکولنگ کے تحت تعلیم پاتے بچوں کی قابلیت ریگولر سکولنگ والے بچوں کے مقابلہ میں کمتر ہے یا کیسی جا رہی، تو حاصل کردہ اعدادو شمار خاصے حیران کن تھے۔یہ ہوم ایجوکیٹڈ بچے جن سٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹس میں appear ہوئے، ریگولر سکولنگ والے بچوں سے consistentlyبہتر رزلٹس لیکر آئے۔ اِن کی رائٹنگ سکِلز ، وسعتِ مطالعہ، وژن وخود اعتمادی وغیرہ اُن سے کئی گنا بہتر تھیں۔ مثلاً SAT Test میں اِن کے سکورز مسلسل بہتر جارہے ہیں۔ ہوم سکولنگ کے پانچ سات برسوں میں جتنی کتابیں اِن بچوں نے ہضم کیں، ریگولر سکولنگ والے اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ریگولر سکولنگ تو بس ایک چل چلاؤ کا نام ہے۔

روز میری وارڈ سے کسی نے پوچھا ہے، آپ نے اپنے بچوں کی سیلف لَرننگ کا پروگرام کس طور نبھایا؟

جواب ملا: میرے اس پروگرام کے خدو خال کچھ یوں رہے:

1- میں نے انہیں سکول نہیں بھیجا۔

2- میں نے انہیں اس لگے بندھے لازمی نصاب سے بھی دور رکھا۔

3- بلکہ ہمارے گھر میں سیکھنے کی قدروقیمت کا جاننا اور اس پر عمل پیرا رہنا ہی سب کچھ تھا۔ اس پر ہمارے یہاں دن رات بات ہوا کرتی۔ حصولِ علم بذریعہ مطالعہ کی promotionکے رول ماڈل خود میں اور میرے شوہر تھے۔ بتدریج گھر کتابوں اور رسالوں سے بھر دیا گیا۔ ہر وقت کتابیں پڑھی جا رہی ہوتیں، اور کتابوں پر تبصرے کیے جا رہے ہوتے۔ بُک ریڈنگ کو بچوں کے روبرو ہم لوگوں نے اعلٰی ترین قدر کے بطور پیش کیا۔ یُوں، یہ قدر یا value از خود بچوں کی رگ رگ میں سماں پر تبصرے کیے جا رہے ہوتے۔ بُک ریڈنگ کو ہم لوگوں نے اعلٰی ترین قدر بنا کر پ گئی۔

4- الیکٹرونک ڈیوائسز کا استعمال سخت محدود رکھا گیا۔

5- بچوں میں جو رویے پنپتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے، اُن کا خود اپنے طرزِ عمل کے ذریعے بھرپور مظاہرہ، بے لچک مستقل مزاجی اور پابندی کیساتھ کیا گیا۔ اِس باب میں ریڈنگ کرنا سرِ فہرست رہا۔ یہ ریڈنگ کلچر آج بھی جاری و ساری ہے۔

6- امتحان یا ٹیسٹ ویسٹ کی خِفت سے کامل دوری۔ یہ بچے کے فطری تجسس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔یعنی اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ وہ فطری تجسس جس کے بطن سے از خود تحصیلِ علم یعنی self-directed learningپروان چڑھتی ہے، یہ اس کا قاتل ہے۔(بطور استاد میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ ٹیسٹ کلچر بچے کی نفسیات کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔یہ صریحا ًہمت شکن عمل ہے۔)

7- بیسیوں میوزیم ٹرِپس۔ خوب ڈھیروں آؤٹ ڈور ایکسپلوریشن outdoor explorationاور خوب ڈھیروں سفر۔ اس سفر میں بھی رِیڈنگ۔ اور ریڈنگ کے علاوہ اپنے مشاہدات کو قلم بند کرنے، دیکھے ہوئے کو ڈسکرائب کرنے کا جوش و خروش۔

8- وقفے وقفے سے ٹاپ یونیورسٹیز کے وزٹس۔ حتی کہ جب وہ ایلیمنٹری سکولنگ کی سطح پر تھے، تب سے۔ اس کا مقصد انہیں موٹی ویشن فراہم کرنا تھا کہ زیادہ ریڈنگ کیا معنے رکھتی ہے، اور انہیں آخرِ کار کس ٹارگٹ پر لینڈ کرنا ہے۔

9- بچے جب 6 گریڈ کی سطح تک آ گئے تو ان میں سے ہر ایک کو اِس Great Courses سیریز میں سے گزارا گیا:

”سُوپر سٹار سٹوڈینٹ کیسے بنا جائے؟” یہاں اس سیریز کا ایک لِنک مہیا کیا گیا ہے۔

10-گھر میں اس کلچر آف لَرننگ کو پروان چڑھانے میں ورائٹی کا پورا اہتمام رکھا گیا۔ یعنی رِیڈنگ کے علاوہ شطرنج، دیگر دماغی قوت بڑھانے والی گیمز، کُوکنگ، پَزلز، بِلڈنگ ٹُولز، آرٹ وغیرہ کا خوب اہتمام رکھا گیا۔

11-میں پھر کہوں گی کہ سکرین کا استعمال محدود رکھنا ہماری خاص ترجیحات میں رہا۔ ہم اس میں پوری طرح کامیاب ہوئے، چونکہ ہم پوری طرح اِنوالو تھے۔موبائل فون، آئی پیڈ وغیرہ ایسے شیاطین کو خوب باندھ کر رکھا گیا۔

گویا ہوم سکولنگ ایک پورا لائف سٹائل ہے۔ جس کسی نے اسے اپنانا ہے، خوب سوچ سمجھ کر، تول پرکھ کر فیصلہ کرے۔ احسان دانش مرحوم کا ایک شعر یاد آیا جو استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر اپنے لیکچرز میں quoteکیا کرتے ہیں:

یونہی دنیا کے لیے ایک تماشا نہ بنے 
جس کو بننا ہو سمجھ سوچ کے دیوانہ بنے 

روز میری وارڈ کا کہنا ہے، والدین کو عملا وہ سب کچھ کرنا ہو گا ، اس سارے عمل میں سےخود ہوگذرنا ہو گا جو وہ اپنے بچوں کو کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک عظیم کمٹمنٹ ہے، اور اسے نبھانے کی ایک قیمت ہے جو آپ کو ادا کرنا ہو گی۔ یہ unwilling parents کے کرنے کا کام نہیں۔ یہ جاب، یہ عظیم پراجیکٹ بلا کی منصوبہ بندی، مستقل مزاجی اور کمٹمنٹ کا متقاضی ہے، نہ کہ دوچار روز کا جوش و خروش۔

روز میری وارڈ کا یہ سفر بیس برس پیشتر شروع ہوا تھا۔ پوچھا گیا کہ اب آپ کے بچے کس سٹیج پر ہیں؟ کہاں پہنچے؟ کیا کھویا کیا پایا؟ تو جواب ملا – وہ سب کے سب خوب پڑھ لکھ گئے، اچھے اچھوں سے بھی اچھا پڑھ لکھ گئے۔ وہ سب کے سب گروپ تھنکنگ پیٹرن پر تربیت ہوئے ہیں۔ اوریجنل تِھنکرز ہیں۔ ریسرچ کے رسیا ہیں۔ کوئی بھی موضوع ہو، اس کے بخیے ادھیڑ ڈالنے والا رجحان پایا ہے۔ مجھے اُن کی learning پر بجا طور پرر بڑا فخر ہے۔ چار بچوں میں سے دو Ivy League Universitiesمیں جا چکے (یہ دنیا کی آٹھ عدد ٹاپ جامعات کا ایک گروپ ہے جس میں ہارورڈ یونیورسٹی بھی شامل ہے اور اس گروپ میں شامل کسی یونیورسٹی میں ایڈمشن کے معیارات خاصے بلند، خاصے سخت ہیں۔ یہ جامعات قطعی سُوپر برین کے حاملین سُوپر قابلیت والے طلبہ و طالبات کو ہی ایڈمشن کے لیے قبول کرتی ہیں)، جبکہ ایک USNA میں چلا گیا ہے ، یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس نیول اکیڈمی میں ۔ چوتھا ، سب سے چھوٹا ، میٹرک کی سطح کے سٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹ میں appear ہونے کو تیاری کے مرحلہ میں ہے۔ اس انفارمیشن کیساتھ ہی نیچے بچوں کی یہ خوبصورت تصویر شیئر کی گئی ہے۔

آئیں ، اب اپنی دنیا میں لوٹ چلیں، اور دیکھیں یہاں کیا کچھ برپا ہے۔

دس روز پہلے امریکہ سے ایک دوست نے مجھے تین عددکتابیں بطور تحفہ بھجوائیں۔ واٹس ایپ پر ان کتابوں کا تعارف وہ پہلے سے کروا چکے تھے – اس وضاحت کیساتھ کہ یہ کتابیں نیویارک کے دو عدد ایسے سکول ٹیچرز نے لکھی ہیں جنہوں نے کلاس روم سیچوئیشن میں براہ راست پڑھاتے عمر گذاری تھی۔ وہ سکول کے قید خانے میں بچوں کو بٹھا کر لگاتار سات آٹھ پیریڈز اُن پر جبرا ًٹھونسنے والےاس تعلیمی نظام سے یعنی mass public education خت برگشتہ تھے۔ وہ دورانِ ملازمت بھی اس سسٹم کے سخت ناقد رہے۔ پچیس تیس برس اِس بیگار محنت میں گزار چکنے کے بعد بد دل ہو کر بالآخر وہ ایک روز چھوڑ گئے۔اپنے خیالات منظم انداز میں کمپوز کیے، اور پھر اپنی محدود سی دنیا میں ایک نیا جہان آباد کر ڈالا۔ دوست کا کہنا تھا، اِن امریکن اساتذہ کے خیالات بالکل تمہاری طرح کے ہیں، ضرور پڑھنا۔ کتابیں اُس دوست کے کزن نے پاکستان پہنچتے ہی میرے ایڈریس پر ارسال کر دیں۔ پڑھنا شروع کیا تو بس گم ہی ہو گیا۔ 

اس سارے مواد اور خود بیتی کی روشنی میں خود ہمارے لیے راہِ عمل کیا ہے؟ اِس مِشن امپاسبل کے خدو خال شاید پانچویں قسط میں شیئر کر سکوں گا۔ فی الحال آپ دوسری قسط کا انتظار کیجے۔
(جاری ہے) 

اپنا تبصرہ بھیجیں