265

عورت بھی انسان ہی ہے۔

مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہئیے ہیں اگر اس دو پہیوں والی گاڑی کا ایک پہیہ تو اپنا کام درست کر رہا ہو اور دوسرے میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو گاڑی چلنے کی بجائے گھسٹنے لگتی ہے اور اگر اس خرابی کاجلد کوئی حل نہ نکلے تو بالآخریہ گاڑی گھسٹتے گھسٹتے رک جاتی ہے۔یہ دو پہیوں والی گاڑی ہمارے معاشرے میں خاندان کا ادارہ ہے جو ایک مرداور عورت کی شادی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔

ہمارے دین نے مرد کو معاش کے معاملات کی ذمہ داری سونپی ہے کہ گھر کے اخراجات کے لئے مرد کما کر لائے اور اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرے اور عورت کو گھر کے اندرونی معاملات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جن میں اپنے شوہر کے مال اور عزت کی حفاظت اور بچوں کی پرورش اور دیگر امور شامل ہیں۔

مادہ پرستی کےموجودہ دور میں مرد حضرات باہرکے کام کاج سے تھکے ماندے گھر جاتے ہیں اور باہر کا غصہ گھر والوں پر نکالنے لگتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ بجائے احسان مند ہونے کے وہ الٹا ایک کمزور پر رعب ڈال کر اپنی ہی ویلیو ڈاؤن کر رہے ہیں۔ آئیے ذرا جائزہ لیں کہ ایک عورت کی عام مصروفیات کیا ہیں جن کا ہم مردوں کو احساس ہونا چاہئیے۔

ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئیے کہ عورت بھی ایک انسان ہے جو دن اور رات کی پرواہ کئے بغیر چوبیس گھنٹے گھر کے کاموں کی دیکھ بھال کرتی ہے اسے نہ اپنی نیند کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ آرام کا خیال۔ کبھی گھر کی صفائی ستھرائی کی ٹینشن ، کبھی کپڑوں کی دھلائی اور استری کرنے کا جھنجٹ، کبھی بچوں کو سنبھالنا اور کبھی کھانا پکانا۔ سردی ہو یا گرمی روزانہ چولہے پر کھڑی ہو کر سب کی فرمائشیں پوری کرنے میں مگن رہتی ہے۔ کسی کو دال پسند ہے تو کسی کو پلاؤ، کوئی سبزی نہیں کھاتا اور کوئی گوشت نہیں کھاتا، وہ سب کو راضی کرنے میں لگی رہتی ہے ۔

کہیں کوئی سالن میں نمک کم رہ گیا تو سب منہ بسورنے لگتے ہیں اگر اچھا کھانا بن گیا تو اس کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔اس تھینک لیس جاب میں نہ کوئی چھٹی کا تصور ہے اور نہ کوئی ویک اینڈ۔ سارا دن کام کاج کے بعد تھک ہار کے سوئی ہو اور چھوٹا بچہ جاگ جائے تو بچے کے ابا اتنے بھی اہل نہیں کہ اسے دوبارہ سلا ہی سکیں اس کے لئے بھی ماں ہی کو اٹھنا پڑتا ہے۔ بچہ پیشاب کرے تو ماں ہی اس کا گند دھوئے۔ گھر میں کوئی بیمار ہے تو اسے دوائی دینا بھی عورت کی ذمہ داری ہے۔ ہر کسی کو کھانا پیش کرنا اور بعد میں سب برتن سمیٹنا اور دھو کر خشک کر کے واپس ریک میں رکھنا بھی اسی کے ذمے ہے اور یہ ساری پریکٹس دن میں تین بار نہیں تو کم از کم ہر گھر میں دو بار تو ضرور ہوتی ہے۔

گھرمیں کوئی مہمان آ گیا تواس کے آنے سے پہلے گھر کی صفائی کرنا اور اس کے لئے سپیشل کھانے بھی اسی نے ہی بنانے ہیں۔ جن ماؤں کے بچے سکول جاتے ہیں وہ گھر کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہوم ورک بھی کرواتی ہیں۔ غرض صبح سے رات ہو جاتی ہے اور اس بیچاری عورت کے کام ختم نہیں ہوتےجو وہ صرف اپنے شوہر کے تعریف کے چند جملے سننے کی چاہت میں کرتی چلی جاتی ہے لیکن شوہر صاحب چونکہ مرد ٹھہرے اور وہ مرد ہی کیا جو بیوی کی تعریف کرکے اس کے نیچے لگنے کا تاثر دے لہٰذا موصوف گھر آتے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر کے بس رعب جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو خاتون تعریف کی امید میں بیٹھی ہوتی ہے اسے الٹا وضاحتیں دینا پڑ جاتی ہیں۔

یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے مرد کو اگر ایک دن خواتین والے یہ سب کام خود سے کرنے پڑ جائیں تو کانوں کو ہاتھ لگا لے۔ مرد تو روتےہوئے بچے کو چپ نہیں کروا سکتے اس کے لئے بھی ماں ہی کو پکڑا دیتے ہیں اور کام کیا کریں گے۔

سب گھروں میں ایسا نہیں ہوتا بہت سے اچھے لوگ بھی ہیں جو اپنی خواتین کا بہت خیال رکھتے ہیں اور انکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ انکی دلجوئی میں بھی کسر نہیں چھوڑتے لیکن یہ چلن بھی ہمارے معاشرے میںبہت عام ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور صرف اسکی مالی ضروریات پوری کر کے مرد اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ عورت بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہی ہے اس کے بھی جذبات و احساسات ہیں۔ اسے بھی آرام کی ضرورت ہے، محبت اور توجہ کی ضرورت ہے۔جس مرد نے نکاح کے وقت اسکا ہاتھ ساری زندگی کے لئے تھامنے کا عہد کیا ہے اب یہ اسکی ذمہ داری میں اپنے والدین اپنے گھر اور سب رشتہ دار چھوڑ کر آگئی ہے اور اگر وہی اسکی قدر نہیں کرے گا تو یہ اس پر ظلم ہو گا۔ مرد کو چاہئیے کہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔ اسے گھر میں قیدی بنا کر نہ رکھے ، کئی مرد حضرات خود دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں لیکن گھروالوں کو ساتھ نہیں لے کر جاتے، یہ بھی غلط طرز عمل ہے۔ باہر گھومنے پھرنے سے انسان کی زندگی میں یکسانیت اور بوریت دور ہو جاتی ہے اور قدرتی مناظر دیکھنے سے طبیعت اور مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں سے بدسلوکی کرتے تھے یہاں تک کہ پیدا ہوتے ہی بچیوں کو زندہ گڑھے میں دفن کر دیتے تھے لیکن ہمارے دین نے عورت کو بہت بلند مقام دیا ہے۔ ماں کے قدموں میں جنت قرار دینا ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔ اسی طرح بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اور خود حضور ﷺ نےاپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے روئیے اور سلوک کا تنہائی میں بیٹھ کر جائزہ لینا چاہئیے کہ ہم اسلام تعلیمات کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا پھر اپنے مرد ہونے کے تکبر کا شکار ہیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں