289

بابا فرید کے مزار میں خاتون کمشنر کے داخلے پر تنازع

کراچی — پاکستان کے کئی علاقوں میں خواتین کو آج بھی مردوں کے مساوی نہیں سمجھا جاتا اور اس جدید دور میں بھی انہیں وہ مقام حاصل نہیں، جو ایک مرد کو دیا جاتا ہے۔

اس کی ایک ’دلچسپ‘ مثال صوبہ پنجاب میں بزرگ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے 776 ویں سالانہ عرس کی تقریبات کے دوران ساہیوال کی خاتون کمشنر ڈاکٹر فرح مسعود کی مزار پر آمد کے سبب کھڑا ہونے والا تنازع ہے۔

یہ واقعہ 20 ستمبر کو پیش آیا۔ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کا مزار پنجاب کے شہر پاکپتن میں واقع ہے اور مزار کے احاطے میں ایک دروازے سے متعلق یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ ’بہشتی دروازہ‘ یا عرفِ عام میں ’جنتی دروازہ‘ ہے۔

عقیدت مند اس دروازے سے گزرنے کو اپنے لیے سعادت قرار دیتے ہیں۔۔۔ لیکن عورتوں کا مزار پر آنا یا دروازے سے گزرنا منع ہے اور پچھلے 775 برسوں سے یہاں کوئی خاتون داخل نہیں ہوئی۔

لاہور کی ایک یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کے استاد اور سینئر صحافی محمد زابر سعید بدر نے واقعے کے متعلق وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بابا فرید کے مزار کے سجادہ نشین دیوان احمد مسعود چشتی نے انہیں بذاتِ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جن کے بقول بے نظیر بھٹو دو مرتبہ بحیثیت وزیرِ اعظم مزار پر آئیں لیکن وہ بھی مزار کے اندر نہیں گئیں کیونکہ وہ سجادہ نشین کے بقول دربار کے آداب سے آگاہ تھیں۔

’بہشتی دروازہ‘ سال میں صرف ایک مرتبہ اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم کی 5 تاریخ سے 10 تاریخ تک کھولا جاتا ہے جس کے بعد اسے دوبارہ سال بھر کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ اس دروازے پر لگا تالا شہر کا کمشنر یا پھر کوئی اور بڑی شخصیت کے ہاتھوں کھلوایا جاتا ہے ۔

سجادہ نشین دیوان احمد مسعود چشتی کے مطابق 8 محرم الحرام کو کمشنر ساہیوال ڈاکٹر فرح مسعود نے مزار کے احاطے میں داخل ہو کر 776 سالہ اس قدیم روایت کو توڑ دیا جس کے تحت کوئی خاتون مزار کے احاطے میں داخل نہیں ہو سکتی۔

تاہم خاتون کمشنر اس واقعے پر دو بار معذرت کرچک یہیں اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ انہیں اس روایت کا علم نہیں تھا۔

دیوان احمد نے بتایا ہے کہ کمشنر ساہیوال ڈاکٹر فرح نے بہشتی دروازے کا قفل نہیں کھولا بلکہ ان کے شوہر اور آر پی او ساہیوال شارق کمال نے کھولا۔ البتہ جب خاتون کمشنر دربار کے احاطے میں داخل ہوئیں تو تنازع پیدا ہوا اور لوگوں نے شدید احتجاج کیا، جس پر بہشتی دروازے کو پندرہ سے بیس منٹ کے لیے بند کر دیا گیا۔

اس پر انتظامیہ نے فوری مداخلت کی اور معذرت کی جس کے بعد بہشتی دروازے کو دوبارہ کھول دیا گیا۔

دیوان احمد نے بتایا، مزار پر معذرت کے بعد آر پی او شارق کمال اور ڈی پی او پاکپتن ماریہ محمود نے خصوصی طور پر گھر آ کر کمشنر صاحبہ کی طرف سے معذرت کی جس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق خاتون کی آمد پر درگاہ میں صورتِ حال کشیدہ ہوگئی تھی جبکہ دیوان فیملی کے ارکان اور پولیس کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ اس دوران درگاہ میں موجود زائرین کی طرف سے بھی انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

اس صورتِ حال پر سجادہ نشین کے بھائی دیوان عظمت سید محمد چشتی کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے پراحتجاج کرتے ہیں اور وزیرِ اعظم عمران خان و وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کریں۔

ان کے بقول 775 برسوں سے کوئی خاتون دروازے سے مزار میں داخل نہیں ہوئی اور اس واقعے سے درگاہ کی برسوں پرانی روایات مسخ ہوئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں