268

اقبالؒ کےمزار پر۔

معزول میاں 14اگست کے روز علامہ اقبالؒ کے مزارپر تشریف لے گئے تو میں سوچ رہا تھا کہ علامہ صاحب کیا سوچ رہے ہوں گے کہ ’’دیکھو دیکھو کون آیا؟‘‘ وہ آدمی آیا جس کی پولیس نے چند ماہ پہلے اسلام آباد میں میرے پوتے ولید اقبال پر تشدد کیا تھا۔

شاعر مشرق نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ ایک وہ شیر میسور ٹیپو سلطان تھا، ایک یہ شیر ہے جو معافی نامہ لکھ کرجدہ چلا گیا تھا اور اب اپنی معزولی بلکہ نااہلی کے بعد اسے جمہوریت اور آئین کی ’’نااہلی‘‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ علامہ صاحب نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ یہ وہی آدمی ہے جو الٹے سیدھے انداز میں سمجھے بغیر میرے شعر پڑھتا اور اکثر سوچتا ہے کہ ’’طائر لاہوتی‘‘ حلال ہے یا حرام اور اگر ’’حلال‘‘ ہے تو اس کا ذائقہ کیسا ہوگا؟ تلور جیسا، تیتر جیسا، مرغابی جیسا یادیسی مرغی جیسا اور اس کا روسٹ بہتر ہوگا یا سوپ یا اس کا پلائو زیادہ لذیذ ہوگا۔

علامہ صاحب نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ کیسا آدمی ہے جسے قائداعظم ثانی کہلانے کا تو بہت شوق ہے لیکن بھول جاتا ہے کہ قائداعظمؒ قانون شکنی کو سخت ناپسند کرتے تھے اور یہاں تک کہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف بھی قانون شکنی کا کبھی نہ سوچا اور اگر کبھی کسی نے ان کی عقیدت اور پاکستان کی محبت میں ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس کی سرزنش فرمائی اور اسے ریاست کا وفادار رہنے کی تلقین کی۔ (یہ قیام پاکستان سے پہلے کا اک مشہور واقعہ ہے)علامہ اقبالؒ کو نواز شریف کی حاضری پر یہ خیال بھی ضرور آیا ہوگا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ’’جاگ پنجابی جاگ تری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ جیسا زہریلا نعرہ بھی لگایا تھا اور آج ایک بار پھر مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے حوالے سے بھونڈی بلیک میلنگ میں مصروف ہے کیونکہ اسے اپنے اقتدار کے علاوہ اورکچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔
شاعر مشرق کا دھیان چھانگا مانگا کی طرف بھی گیا ہوگا کہ آج کل ووٹ کی عزت کا پرچار کرنے والا یہی آدمی تو ہارس ٹریڈنگ کا امام بھی ہے جس نے ذاتی اقتدار کے استحکام و دوام کے لئے پنجاب پولیس میں جرائم پیشہ لوگوں کو بھرتی کرنےسے بھی دریغ نہیں کیا تھا اور سرکاری زمینیں پلاٹوں کی شکل میں ریوڑیوں کی طرح اپنے حواریوں میں بانٹ کر انسانوں کو جانوروں کے ریوڑوں میں تبدیل کیا تھا۔ ہاں یہی وہ ذات شریف ہے جس نے اس ملک کے سیاسی کلچر کو طرح طرح سے تباہ و برباد کیا، ادارے اجاڑے اورمیرٹ کے لئے بوسہ ٔ مرگ ہونے کےساتھ ساتھ بے معنی منصوبے بنا کر عوام کو ماموں بنانے کی کوشش کی۔ کبھی ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا جگاڑ کبھی پیلی ٹیکسی کی بے بنیاد نوٹنکی، کبھی ایس آر اوز کی تبدیلی جیسی واردات، کبھی سستی روٹیاں، کبھی آشیانہ، کبھی بے فیض، بے ثمر، بے نتیجہ غیردانش مندانہ دانش سکول۔ علامہ صاحب نے یقیناً یہ حساب کتاب لگایا ہوگا کہ یہ خاندان مالی، اخلاقی، انتظامی اور سیاسی طور پر پاکستان کو کتنا مہنگا پڑا ہے اور یہ شخص نااہل قرار پانے کے باوجود بھی نچلا بیٹھنے کو تیار نہیں۔ 
علامہ صاحب یہ سوچ کر مسکرائے بھی ہوں گے کہ یہ لوگ کتنی تیزی سے بگٹٹ اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں۔ شاعر مشرق جیسے صاحب ِ بصیر ت کو اندازہ ہوگا کہ یہ ذہنیت ماضی کی طرح آج کل بھی ایک طرف تڑیوں اور دوسری طرف ترلوں میں مصروف ہوگی۔ ’’ری اینٹری‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’سیف ایگزٹ‘‘ پر بھی زور و شور سے کام ہو رہا ہے۔ مصور ِ پاکستان یقیناً منتظر ہوں گے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ انہیں انصاف کب نصیب ہوتا ہے اور جسٹس نجفی رپورٹ کب منظرعام پر آتی ہے۔ علامہ خود بھی قانون دان تھے، انہیں فکر ہوگی کہ حکمران شہدا کے ورثا کو ’’ڈنڈے اور گاجر‘‘ کے کھیل میں نہ گھسیٹ لیں۔ ان کی خواہش ہوگی کہ ریاست خود شہدا اور ورثا کی وارث بنے اور 14 شہیدوں کو ایسا انصاف ملے کہ پاکستان کی تاریخ میں پھر کبھی کسی حکمران اور خاندان کو ایسی بربریت و درندگی کی جرأت نہ ہو۔
علامہ اقبالؒ اس صورتحال سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہوں گے کہ نواز شریف نے ’’اسٹے‘‘ مانگ لیا ہے۔ ان کے کانوں میں مارچ کے دوران کی گئی تقریریں بھی گونج رہی ہوں گی اور یہ خبریں بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں گی کہ ایک طرف باکردار، با اصول نواز شریف اینڈ کمپنی (14ارکان پارلیمنٹ) کو توہین عدالت کیس میں نوٹسز بھی مل چکے تو دوسری طرف اسی نواز شریف نے آصف زرداری کو ’’مفاہمتی فارمولا‘‘ بھی پیش کردیا ہے۔ جس کے تحت پیپلزپارٹی کو آئندہ حکومت کی گارنٹی بھی دی گئی ہے بشرطیکہ پیپلزپارٹی 62۔63 ختم کرانے میں ’’تعاون‘‘ کرے۔

سننے میں آ یا ہے اس عوام دشمن ملی بھگت کو ’’ملکی مفاد‘‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ آصف زرداری نے اسفند یار ولی اور فضل الرحمٰن کو بھی اعتماد میں لینے کی شرط رکھ دی ہے اور ایم کیو ایم کی تمام شرائط ماننے کا فیصلہ بھی ہوچکا۔ہوشیار! خبردار!ایک طرف عوام اور عمران….. دوسری طرف تمام تر جانی پہچانی عوام دشمن قوتیں گینگ اپ ہو رہی ہیں لیکن ٹینشن نہیں لینے کا کیونکہ…..’’جن کا کوئی بھی نہ ہو ان کا خدا ہوتا ہے‘‘
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)

اپنا تبصرہ بھیجیں