256

قیادت کا قحط۔

سیاستدانوں کے بارے لکھ لکھ اور بول بول کر خود اپنے آپ سے بے زاری سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کا حال تو اس شاعر سے بھی برا ہے جس نے کہا تھا؎”I have no yesterdaysTime took them all awayTomorrow may not beBut I still have today.”ان کا تو “Today” بھی بیکار اور بدبودارہے۔ کوئی سروے تو کرے کرائے کہ پاکستان میں سب سے ناپسندیدہ کمیونٹی، پیشہ کون سا ہے تو چشم بددور یہی سرفہرست ہوں گے لیکن یہ لوگ اس کے باوجود اپنے لچھن اور لہجے تبدیل کرنے کوتیار نہیں۔ 

عموماً دو قسم کے لوگ اس کھیل میں دکھائی دیتے ہیں۔ اول موروثی دوم مہم جو قسم کےکن ٹٹے۔ جسے یقین نہ آئے وہ اپنے سیاسی منظرنامے کو غورسے دیکھے کہ کتنے پروفیشنلز اس میدان میں موجود ہیں اورباقیوں کا پس منظر کیاہے۔گورننس قدرت کا سب سے بڑا احسان ہے اور یہ سیاست کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہے تو سیاست بری کیسے ہوسکتی ہے کہ اسے تو اتم ترین پیشہ ہونا چاہئے لیکن یہاں؟؟؟ زیادہ تر بدترین ہیومن میٹریل اس طرف متوجہ ہوتاہے کیونکہ معروضی حالات ہی ایسے ہوتے ہیں ’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘ یہ عزت داروں کا کام ہی نہیں کیونکہ کہانی کا’’مرکزی خیال‘‘ صرف اتنا رہ گیا ہے کہ بہت سی بے عزتی کے بعد تھوڑی سی عزت پالی جائے۔ چندلوگوں کی بے تحاشا خوشامد کےبعد کچھ عرصہ کے لئے کچھ لوگوں پر حق حکمرانی حاصل کرلیا جائے۔لیڈروں میں ایسا کیاہوتاہے جو ان لوگوں میں نہیں ہوتا جنہیں ’’لیڈ‘‘ کیاجاتاہے تو باقی صفات اور شرائط کی طرف بعد میں آتے ہیں، پہلے دیکھیں اقبالؒ نے کیا کہا تھا؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے
اب اپنا اپنا لیڈر، اپنے اپنے دھیان مبارک میں لائیے کہ ان میں سے کون ’’نگہِ بلند‘‘ والی Defination میں فٹ بیٹھتا ہے۔ بڑے بڑے گھروں، بیش قیمت گاڑیوں، مہنگی ترین گھڑیوں، بیرون ملک جائیدادوںکےیہ اسیر اور حریص کہاں اور نگہ کی بلندی کدھر، رہ گیا سخن کا دل نواز ہونا تو یہ سب شرارے، انگارے، زہر اگلتے تو ہم دن رات بھگتتے ہیں۔ ان کے خوف سے ٹی وی دیکھتے، اخبار کھولتے بھی خوف آتا ہے اور لیڈر شپ کچھ ایسی شے بن گئی کہ صنف ِ نازک بھی اِدھر آ نکلے تو نزاکت کی جگہ آفت، ترنم کی جگہ گھن گرج، وژن کی جگہ اندھا پن، بھرے پن کی جگہ کھوکھلا پن، گہرائی کی بجائے بلاکی سطحیت اور عامیانہ پن، رہ گئی جاں کی پرسوزی تو یہ ’’جہاں سوز‘‘ ہیں، جاں پرسوز والا کوئی کھاتہ نہیں۔یہ تو ہلکا پھلکا تبصرہ تھا شاعر مشرق کی تعریف پر کہ ’’میر کارواں‘‘ یعنی لیڈر کیسا ہوتاہے۔ اب مغرب والوں کی سنئے جن کے نزدیک قائد، قیادت کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہوتے ہیں۔
Conscience Discipline Excellence Experience
Forgiveness HonorIntegrity
Reputation Perseverance
Preparation Teamwork
Vision Wisdom
ہماری 70سالہ تاریخ میں سوا لیڈر گزرے ہیں۔ ایک پورے تو محمد علی جناح جنہیں مندرجہ بالا ایک ایک لفظ کی کسوٹی پر پرکھیں تو آپ کا ہاتھ نہیں لرزے گا، ایک چوتھائی تھا ذوالفقارعلی بھٹو جس کےبعد ٹھن ٹھن گوپال بھی محال۔سیاستدان اپنی انتہا کوپہنچے تو ’’مدبر‘‘ منظرعام پر ابھرتا ہے اور جب تاریخ انسانی کےسارے مدبر اکٹھے کئے جائیں تو انتہائوں کا انتہا’’جسے شہہ شش جہات دیکھوںاسے غریبوں کے ساتھ دیکھوںمیرا پیمر ﷺ عظیم تر‘‘مائیکل ایچ ہارٹ (Michael H. Hart) ہو یاایس پی اسکاٹ (S.P.Scott)، سر تھامس کارلائل (Sir. Thomas Carlyle) ہو یا ولیم میور (Willam Muir) جان گلب (John Glubb) ہو یا پرنگل کینیڈی (Pringle Kennedy) غیرمسلم دانشور بھی ان کی عظمت و رفعت و قیادت پر متفق ہیں تو سمجھ نہیں آتی عالم اسلام بالخصوص ’’اسلام کا قلعہ‘‘اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جینوئن قیادت کا اس درجہ قحط اوربحران کیوں ہے۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے جب ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کے سربراہ مصطفیٰ کمال کراچی سے تشریف لائے تو دوران گفتگو میں نے ان سے کہا کہ ’’سیرت النبیﷺ توہر پڑھے لکھے مسلمان نے پڑھی ہوتی ہے آپ نے بھی خوب پڑھی ہوگی لیکن میری فرمائش پر ایک بار یہ بات ذہن میں رکھ کر غور سے پڑھئے کہ آپ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے مدبر اور کامیاب ترین قائد کے بار ےمیں پڑھ رہے ہیں کہ حضورﷺ نے کس کس سچوایشن میں کس کس طرح ایکٹ ری ایکٹ اوربی ہیو کیا اورمیرا دعویٰ ہے کہ کوئی انسان ایسی صورتحال سے کبھی دوچار ہی نہیں ہوا جس کا آپ نے سامنا نہ کیاہو۔‘‘سچ یہ ہے کہ مجھے آج تک مسلمانوں میں قیادت کے قحط کی سمجھ نہیں آرہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں