370

نیا نہیں پرانا پاکستان چاہئیے۔

ماناکہ نوازشریف اورآصف زرداری سمیت ہمارے سابق تمام حکمران دنیاکے سب سے بڑے ڈاکواورچورتھے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ان چوروں اورڈاکوؤں کے دورمیں بھی تواس قدر 2ہزارفتارکی یہ مہنگائی،قدم قدم پریہ غربت ،گھرگھراوردردرپریہ بیروزگاری تو نہ تھی وہ اگراتنے بڑے چوراورڈاکوہوتے توپھران کے ادوارمیں مہنگائی کی رفتارآج کے مقابلے میں5ہزاراورغربت ،بھوک ،افلاس اوربیروزگاری کی شرح سوکی بجائے ہزارفیصدہونی چاہئیے تھی۔ ۔؟بازاری مداریوں کی طرح سیاسی مداریوں کایہ کھیل بھی کچھ نہیں بلکہ بہت عجیب سالگ رہاہے۔اس ملک پر ماضی قریب اوربعیدمیں حکمرانی کی بدولت دنیاکے سب سے بڑے چوراورڈاکوؤں کادرجہ پانے والے سابق حکمرانوں کے ادوارمیں بھی اس ملک کے اندراس قدرمہنگائی،غربت اوربیروزگاری نہیں رہی جس قدرآج دنیاکے نمبر1ایمانداروں کی حکمرانی میں ہے۔

چاہےئے تویہ تھا کہ چوروں اورڈاکوؤں کی حکمرانی میں نہ صرف مہنگائی آسمان کوچھوتی بلکہ غربت وبیروزگاری کی شرح بھی حدسے زیادہ بڑھتی لیکن چوروں اورڈاکوؤں کے دورمیں توایساکچھ نہیں ہوالیکن آج جب ملک پرایمانداروں کی حکمرانی ہے اورقوم کی ایک ایک چیزامانت کے طورپرسرسے پاؤں تک محفوظ ہے ۔ایسے حالات میں نہ صرف مہنگائی آسمان کوچھورہی ہے بلکہ غربت وبیروزگاری کی شرح بھی مسلسل حدسے زیادہ بڑھتی جارہی ہے اورساتھ عوام سے چیخیں نکالنے کی باتیں بھی ادھرادھرسے سنائی دے رہی ہیں ۔یہ بات بھی دل ،دماغ اورذہن پرگراں گزررہی ہے کہ چوروں اورڈاکوؤں کی بادشاہت کی بجائے ایمانداروں کی حکمرانی میں لوگوں کی چیخیں نکلیں۔یہ بات توہم مانتے ہیں کہ ڈاکوؤں اورچوروں کے کالے اورمنحوس چہرے دیکھ کرڈراورخوف کے مارے لوگوں کی چیخیں نکل سکتی ہیں مگرکسی ایماندارکی وجہ سے کسی کی چیخیں نکلنے کاسوال پیدانہیں ہوتا۔ 
ڈاکوؤں،چوروں اورایمانداروں میں یہی فرق ہے کہ جو ایماندارہوتے ہیں وہ بے ضررہوتے ہیں ۔وہ نہ خودچیختے ہیں اورنہ ہی وہ کسی غریب اورمجبورکی چیخیں نکالنے کاکبھی سوچتے ہیں ۔ عوام سے چیخیں نکالنے کی باتیں اگردرست ہیں توپھراقتدارکی دم پکڑنے والے ایمانداروں کواپنی ایمانداری کے بارے میں ضرورسوچناچاہئیے۔کہتے ہیں کہ سابق چوراورڈاکوحکمرانوں نے قرضوں پرقرضے لے کرملک کادیوالیہ کیالیکن ایمانداروں کی یہ بات اورگلہ بھی دل اوردماغ کوکہیں سے ٹچ نہیں کرپارہانہ ہی اس دعوے پردل قرارپکڑرہاہے کیونکہ جتنے کشکول اس حکومت میں بڑے بڑے ایمانداروں اوربے چارے کشکول پرماضی میں ہزاربارلعنت بھیجنے والوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھائے اورچین،متحدہ عرب امارات،سعودی عرب،قطراوردیگرممالک میں گلی گلی اورمحلے محلے فقیروں اوربھکاریوں کی طرح پھیرائے۔ اتنے کشکول توقیام پاکستان سے لیکرپرانے پاکستان کی آخری حکومت کے اختتام تک اس بدقسمت مٹی پر بنے بھی نہیں ہوں گے۔
ماضی میں قرض اورلوٹ مارکے مرض پرایک ایک دن میں دس دس ہزاربارلعنت بھیجنے والوں نے اقتدارمیں آتے ہی اسی قرض کے لئے آئی ایم ایف سے ہاتھ ملانے کے لئے نہ صرف اپنی پوری چادرپھیلائی بلکہ اسی قرض کی خاطرملکوں ملکوں کے طواف کرکے چکروں پرچکربھی لگائے۔ الیکشن سے پہلے دوسروں کے منہ پراربوں روپے مارنے کے دعوے کرنے والوں نے اقتدارمیں آتے ہی اربوں روپے پانے کی ادھوری خواہش میں اپنے ہی منہ اس طرح دوسروں کے آگے کردےئے کہ شائدکوئی غلطی سے ہمارے ان کھلے منہ پرکسی سمت سے اربوں روپے مارہی دے مگریہ خواہش بھی خواہش ہی رہی۔سابق حکمرانوں میں جن کوبڑے بڑے چور اورڈاکوؤں کانام دیاگیاان کے پیٹ چاک کرکے اربوں اورکھربوں نکالنے کے دعوے بھی سیاسی مصلحت،ذاتی مفادات اورسیاسی انتقام کے سائے تلے ہوامیں اڑگئے۔برسوں سے جس صاف ،شفاف اورکڑے احتساب کے گن گائے جارہے تھے اسے بھی ،،بغض مخالف،، کے گندسے آلودہ کرکے کنارے لگادیاگیا۔
پرانے پاکستان میں جن زبان درازوں کوچوکیدارتک نہ رکھنے کی باتیں کی جارہی تھیں نئے پاکستان بنتے ہی انہیں بھی اقتدارملنے کی خوشی میں وزارت کے تحفے دےئے گئے۔نئے پاکستان کو،،ریاست مدینہ ،،کے طرزپربنانے والوں کی حکمرانی میں اس ملک کے درودیواروں سے تاریخ میں پہلی مرتبہ ،،میراجسم میری مرضی،،نکاح نہیں آزادی چاہئے،،کھاناخودگرم کروجیسے سیاہ وکالے الفاظ اوربے حیائی سے لبریزنعرے بھی اس طرح ٹکرائے کہ جس نے کلمہ طیبہ کے نام پربننے والے اس ملک میں رہنے والے ہرباحیا،باکردار،باعزت اورباغیرت شہری اوردیہاتی کوشرم سے پانی پانی کردیا۔نئے پاکستان میں جنہوں نے ووٹ کے ذریعے حصہ نہ ڈالاوہ توپہلے سے ہی آنسوبہارہے تھے لیکن اب ووٹ دینے والے بھی مہنگائی،غربت،بیروزگاری اوربھوک وافلاس کے مناظر اورمظالم دیکھ کراپنے آنسوؤں پرقابونہیں پارہے ۔
نئے پاکستان میں روزگارکے پہلے سے کھلے دربھی بندہوچکے ہیں۔غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کاکام تو پورے ملک میں جہادکی طرح جاری اورساری ہے۔نئے پاکستان بننے کے بعدمحض چندمہینوں میں نہ جانے کتنے ہزارافراداب تک لگی نوکریوں سے فارغ ہوچکے ہیں ۔ملک میں کام ہے نہ کوئی کاج ۔لیکن گیس اوربجلی کے بھاری بلوں سمیت ملک بھرمیں مہنگائی کااس طرح راج ہے کہ غریب بندے کے لئے اب نئے پاکستان میں رہنامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتاجارہاہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اوربیروزگاری دیکھ کراب بہت سوں کوپرانے پاکستان کی یادستانے لگی ہے۔ماناکہ پرانے پاکستان میں بڑے بڑے چوراورڈاکواقتدارکی کرسی پرفائزہوتے ہوں گے لیکن ان چوروں اورڈاکوؤں کی حکمرانی میں بھی بجلی اورگیس کے اتنے بھاری بل کبھی کسی کے نہیں آئے۔غریبوں کے چولہے جلنے والے پرائیوٹ سیکٹرکاکباڑہ بھی کسی نے اس طرح نہیں کیاجس طرح اس حکومت میں سرمایہ کارسرمایہ لگانے کی بجائے سرمایہ واپس کررہے ہیں۔
ہم مانتے ہیں کہ مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری جیسے یہ مسائل پرانے پاکستان میں بھی تھے لیکن اس قدرگھمبیراورخطرناک کبھی نہ تھے۔پرانے پاکستان میں دووقت کانہ سہی لیکن ایک وقت کاکھاناتوغریب پیٹ بھرکرکھاتے تھے ۔آج تو مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے اکثرغریبوں کی جھونپڑیوں میں آگ بھی نہیں جلتی۔ہمارے ایماندارحکمران سوشل میڈیااورفیس بک پرغریبوں کوڈھونڈرہے ہیں کہ ایک کلوآٹے اورپاؤدال کے بدلے ایک اچھی سی سیلفی کیلئے کہیں کوئی غریب مل جائے حالانکہ اس ملک کی گلیوں اورمحلوں میں غریبوں کی کوئی کمی ہی نہیں ۔ہرغریب کی سوشل میڈیااورفیس بک تک پہنچ ہے اورنہ ہی کوئی غریب ایک کلوآٹے اورپاؤدال کے بدلے خودکوتماشابناناچاہتاہے۔ہمارے ان ایماندارحکمرانوں،ان کے وزیروں اورمشیروں کواگرخدمت خلق کاواقعی شوق اورغریبوں کی کوئی فکرہوتی تویہ سنگ مرمرسے بنے محلات اورپجاروگاڑیوں سے ایک منٹ کے لئے نیچے اترکرکیچڑزدہ گلیوں اورمحلوں میں غریبوں کی جھونپڑیوں میں ضرور جھانکتے ۔
ریاست مدینہ والے راتوں کونہ صرف لوگوں کی چوکیداری کرتے تھے بلکہ لمحہ بہ لمحہ ان کی خبربھی لیتے تھے۔ان کواپنی تنخواہوں اورمراعات سے زیادہ رعایاکی فکرہوتی تھی ۔وہ ہزاروں اورلاکھوں کے حساب سے اپنی تنخواہیں بڑھانے کی فکرنہ کرتے بلکہ وہ تو ایک مزدورکی اجرت کے برابر اپنی تنخواہ مقررکرتے تاکہ پتہ چلے کہ اس تنخواہ میں مزدورکاگزارہ ہوتاہے کہ نہیں ۔لیکن آج نئے پاکستان کومدینہ جیسی ریاست بنانے والوں کواپنی تنخواہوں اورمراعات کی فکرتوہے لیکن وہ اس ملک میں خط غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے والے غریبوں اورمزدوروں کے حالات سے باالکل بے خبراورنابلدہیں ۔چوراورڈاکوؤں کے مقابلے میں اگر ایماندارحکمرانوں کے بھی یہی حالات،عادات اوراطواررہے توبہت جلدپھرلوگ نہ صرف کہہ اٹھیں گے بلکہ چیخیں گے بھی کہ ہمیں نیانہیں وہی پراناپاکستان چاہئیے جس میں کم ازکم ہم جی توسکتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں