Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
251

بلا امتیاز رحمت۔

پچھلے چند سال میں بلکہ شاید یہ کہنا مُناسب ہو کہ اسلام کی حقّانیت پر ایمان لانے کے بعد حقیقی علمِ دین کی تلاش میں مُختلف ممالک کے دینی سکالرز کے در کی خاک چھاننے کے ساتھ ساتھ میرا یہ گُمان یقین بنتا جاتا ہے کہ علمِ دین کی مثال سمندر بننے کے سفر اور زندگی کے اس سے تعلّق جیسی ہے۔
ہر طرف سے ان گنت ندی نالے، نہریں اور دریا بہتے چلے آتے ہیں اور طویل سفر کے بعد اس سمندر میں آکر اسکا حصّہ بن جاتے ہیں۔

عُلماء، سائنسدان، فلاسفرز، اساتذہ اور دیگر عُلوم کے ماہرین سمیت عام لوگ سمندر یعنی علمِ الٰہی کی تلاش میں سفر شُروع کرنے والے ندی نالے ہی تو ہیں۔

دیکھا جائے تو بارش کے ہر قطرے کا ندی نالے کے وجود میں کردار ہے پھر ندی نالوں کا دریاؤں کے بننے میں حصّہ ہے اورپھر دریا اور بارش مل کر سمندر کی تازگی قائم رکھتے ہیں۔

لیکن بارش، ندی نالے، نہر، دریا اور سمندر میں بہرحال فرق ہے۔ بارش کے بعض قطرے ڈائریکٹ سمندر میں گرتے ہیں اوربعض زمین پر۔

زمین پر گرنے والا ہر قطرہ ضرُوری نہیں کہ ندی اور دریا کے بننے میں کردار ادا کر کے سمندر تک پُہنچے۔

ندی اور دریا بننے میں مدد دینے والا بارش کا ہر قطرہ بھی لازماََ سمندر تک نہیں پُہنچے گا۔

لیکن ہر ندی نالے دریاؤں اور سمندروں سے پانی کے بعض قطرے زمین کی حدّت سے مجبُور ہو کر بُخارات کی شکل میں زمین سے اُوپر اُٹھ جاتے ہیں‘

اُوپرکی فضائیں انکی آلُودگی دور کر دیتی ہیں اور پھر یہ قطرے بارش کی شکل میں سمندر اور انسانوں سمیت اللہ کی ہر مخلُوق میں بلاامتیاز زندگی بانٹتے ہیں۔

ہرعالم، ہر اُستاد ہر شاگرد غرض ہر قطرے کے اختیار میں ہوتا ہے کہ ندی سے سمندر کے سفر کے دوران کہیں بھی حدّت اور شدّت سے بے زاری اختیار کر کے زمین سے اُوپر اُٹھ کر انسانوں سمیت اللہ کی ہر مخلُوق میں بلاامتیاز زندگی بانٹنے والا بن جائے۔

جمُود اور مومینٹم توڑ کر اپنی سطح سے اُوپر اُٹھنے کو تیّار ہونا مُشکل کام ہے۔

وہ جتنی دیر سے یہ فیصلہ کرے گا اُسکا سفر اُتنا ہی طویل ہوتا رہے گا۔

اگر وہ سمندر تک پُہنچنے میں کامیاب بھی رہا تب بھی اُسے یہی اندازہ ہوگا کہ اُسکا سارا سفرکم چوڑے دریا میں بھاگتے ہی گُزرا حقیقت تو بہت وسیع تھی۔

سمندر میں پُہنچ کر بھی اُسکی منزل بُخارات میں بدل کر انسانوں سمیت اللہ کی ہر مخلُوق میں بلاامتیاز زندگی کی بارش بانٹنا ہی ہوگی۔

یعنی منزل سمندر نہیں بلاامتیاز زندگی بانٹنا ہے۔

کیوں نہ ہم حدّت اور شدّت سے جلدی بیزار ہو کر بلا امتیازرحمت بن جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں