ایک مہربان ہیں عبدالرزاق صاحب….
جنھیں ہم سب یہاں کی ریت کے مطابق “رزاق بھائی ” ہی کہتے ہیں….
ان کی طرف کاروبار کے سلسلے میں میری کچھ رقم نکلتی تھی….
ایک روز ان کے وعدے کے مطابق میں ان کے ہاں رقم لینے پہنچا….
انہوں نے پوری رقم دینے کی بجائے اسکا کوئی 10 فی صد حصّہ ادا کیا
اور باقی رقم کے لیے ایک مہینے کے بعد کا وقت لے لیا…..
خیر کاروبار میں یہ چلتا رہتا ہے….
وہ ایک اچھے باذوق انسان ہیں….شعرو شاعری کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں….
حالانکہ کاروباری حلقوں سے منسلک لوگوں میں یہ کم ہی ہوتی ہے…..
میں جب رخصت ہونے لگا تو کہنے لگے…
“حنیف بھائی! لیں دین تو ہو گیا ..اب جاتے جاتے کچھ سنا کر ہی جائیے…”
میں نے ہنستے ہوئے کہا…
“رزاق بھائی! کیا سناؤں…
اتنی کم رقم دی ہے کہ… جی چاہتا ہے کہ کھری کھری سناؤں…ہا ہا ہا ….”
وہ بھی ہنسنے لگے….
“ارے نہیں نہیں حنیف بھائی! میرا مطلب ہے کوئی عمدہ کلام سنائیے…”
مجھے اس وقت علامہ اقبال کا ایک قطعہ یاد آیا….
جو حسب_حال بھی تھا….
میں نے کہا..
“لیجئے رزاق بھائی! علامہ کا کلام سنئے….
میرے پیالے میں مے باقی نہیں ہے،
بتا کیا تو میرا ساقی نہیں ہے،
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم،
بخیلی ہے یہ “رزاقی” نہیں ہے.