381

جادو اور جنات سے متعلق چند سوالات۔

مشہور عالم دین مقبول احمد سلفی سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے گئے تو انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انکے جوابات دیئے جو ذیل میں قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔

 

1) اگر جن کسی انسان کو تنگ کرے تو کیا اسے اس انسان کے اندر حاضر کر کے اس سے بات کی جا سکتی ہے؟

2) کیا کسی پر جادو کی علامات کودیکھا جا سکتا ہے وہ اس وجہ سے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پانی پر آیت الکرسی پڑھ کر پینے سے ذائقہ کڑوا لگے تو یہ جادو ہے وغیرہ۔

3) انسان کو اگر اس کا نفس ہر وقت برائی پر ابھارے تو اس کا کیا مطلب ہے،معلوم رہے وہ انسان تلاوت بھی کرتا ہو، نماز بھی پڑھتاُہوُ، ذکر اذکار بھی کرتا ہو، اپنی نظروں کی حفاظت بھی کرتا ہو۔

4) کیا واقعی آیات سحر کو ایک خاص مقدار میں پڑھنا اور پھر مریض کو دم کرنا، یا کسی چیز پر دم کر کے کھلانا یا پلانا نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

سائل : جاسم منیر کویت
الجواب بعون اللہ الوھاب
الحمدللہ:

 

(1) جنات انسان کو پریشان کرتے ہیں ، تکلیف پہنچاتے ہیں لیکن یہ جائز نہیں کہ جن کو اس انسان کے جسم میں حاضر کیا جائے جس کو تکلیف پہنچارہاہے کیونکہ جن کو وہی حاضر کرسکتے ہیں جنہوں نے جادو کا عمل کیا ہو جو کفر ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ جن کو قابو میں کرنا یا جنات سے مدد حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔ ہاں کسی کے بدن میں جن داخل ہوگیا ہوتو اس سے مخاطب ہوکر بات کی جاسکتی ہے جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث میں ذکر ہے۔

 

عن عثمان بن ابي العاص ، قال:‏‏‏‏ لما استعملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف ، جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما ادري ما اصلي ، فلما رايت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏”ابن ابي العاص”، قلت:‏‏‏‏ نعم يا رسول الله ، قال:‏‏‏‏”ما جاء بك”، قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله ، عرض لي شيء في صلواتي حتى ما ادري ما اصلي ، قال:‏‏‏‏”ذاك الشيطان ادنه”، فدنوت منه ، فجلست على صدور قدمي ، قال:‏‏‏‏ فضرب صدري بيده ، وتفل في فمي ، وقال:‏‏‏‏”اخرج عدو الله”، ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال:‏‏‏‏”الحق بعملك”، قال:‏‏‏‏ فقال عثمان:‏‏‏‏ فلعمري ما احسبه خالطني بعد.(صحيح ابن ماجة ح 2858)
ترجمہ : عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔


٭اس حدیث میں دلیل ہے کہ صحابی رسول کے بدن میں شیطان داخل ہوگیا تھا ، اسی وجہ سے نبی ﷺ نے اس شیطان کو اندر سے نکلنے کا حکم دیا ۔ اگر شیطان اندر نہیں ہوتا تو نکلنے کا حکم دینا لغو اور عبث ٹھہرتا اور ہمارے نبی ﷺ نے کبھی کوئی لغو بات نہیں کی ۔

٭علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ کبھی شیطان انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ، گرچہ مومن اور صالح آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھیں : سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 2918)
(2) بے شک جادو کی علامات ہیں جنہیں دیکھ کرکسی کے متعلق اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پرجادو کیا گیا ہے اور یہ بات بعض لوگوں نے جادو کے علاج میں لکھی ہے کہ پانی پرآیت الکرسی پڑھ کرمریض کوپلایا جائے اگر اصل ذائقہ معلوم ہوتو عمل روک دیا جائے ورنہ کڑواہٹ محسوس ہونے پر پھر سے اسی طرح دم کرکے پلایا جائے ۔ یہ جنات کا علاج کرنے والوں کا اپنا تجربہ کہا جاسکتا ہے۔

 

(3) نفس تو انسان کو برائی پر ابھارے گا ہی ،اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَۃٌ بِالسُّوء ِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیَ (یوسف: ۵۳)
ترجمہ: نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو۔


اس وجہ سے نفس کی برائی سے بچنے کے لئے کثرت سے اللہ کی پناہ طلب کرے ، محمد ﷺ بھی اللہ تعالی سے دعا کیا کرتے تھے ، اس سے متعلق بہت ساری دعائیں ہیں ، ایک یہ بھی ہے :
أعوذُ بك من شرِّ نفسي ومن شرِّ الشيطانِ وشرَكِه وأنْ أقترفَ على نفسي سوءًا أو أجرَّهُ إلى مسلمٍ(صحيح الترمذي:3529)

ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر اور اس کے جال اور پھندوں سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اپنے آپ کے خلاف کوئی گناہ کر بیٹھوں، یا اس گناہ میں کسی مسلمان کو ملوث کر دوں۔


اسی طرح دلجعی سے عبادت کی جائے ، بہت سے لوگ عبادت کرتے ہیں مگر اس کی روح یا لذت سے محروم ہوتے ہیں۔ نفلی عبادتوں میں تہجد انسانی نفس کو قابو میں رکھنے کے لئے مفید ہے۔ ذکرواذکار اور توبہ واستغفار کو لازم پکڑیں ،بری صحبت بچیں اور اچھی صحبت اختیار کریں،ان باتوں سے نفس پر غلبہ حاصل ہوگا اور اللہ کی توفیق سے اس کے شر سے بچ سکیں گے ۔
 

(4) قرآن کی بعض آیات اور بعض سورتیں سحر کے توڑ کے طور پر احادیث سے ثابت ہیں ، ان میں سورہ فاتحہ،سورہ بقرہ ، آیت الکرسی ، سورہ فلق اور سورہ ناس وغیرہ ہیں۔ اور اسی طرح سحر سے متعلق آیات وادعیہ مریض پر دم کرسکتے ہیں اور کسی چیز میں دم کرکے اسے پلا بھی سکتے ہیں۔

واللہ اعلم
کبتہ
مقبول احمدسلفی

اپنا تبصرہ بھیجیں