کاش ستر برس بعد ہم فخر سے بطور پاکستانی ,دنیا میں بھی اور اپنے خدا کے آگے بھی سر اٹھا کر کھڑے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے. لیکن پاکستان موجود ہے اور ہمارے پاس مواقع اور صلاحیتیں موجود ہیں. حقیقی محبت تو دلیل اور حقائق کی کشش کو دل کے احساسات پر غالب نہیں آنے دیتی تو ہماری وطن کی محبت بھی تلخ سچائیوں پر بھاری ہے۔
باتوں اور بڑھکوں سے ملکوں نے ترقی کرنی ہوتی تو ستر برسوں میں ہوچکی ہوتی اس لئے کردار کی بڑھوتی پر زور دیں گفتار کے غازی پن سے جان چھڑانی ہوگی.
اب کچھ بیکار کے جونک نما مغالطوں کا ذکر ہوجائے.
قومی ترانہ غیر زبان میں کیوں؟
ایک تنقید یہ ہوتی ہے کہ قومی ترانہ ہمارا قومی زبان میں نہیں ہے تمام الفاظ فارسی اور عربی کے ہیں. اس حد درجہ احمقانہ سوال پر “ہم سب” ویب سائٹ پر ظفر عمران کا کالم پڑھ لیں تمام کانسپٹ واضح ہوجائیں گے. ظفر بھائی لینگوسٹک ماہر اور ڈرامہ نگار ہیں. انکا کہنا درست ہے کہ دنیا کہ تمام زبانیں مختلف زبانوں کے ملاپ سے بنتی ہیں. اس لئے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ پر اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ ترانے کے تمام الفاظ بآسانی عام اردو پڑھنے والا سمجھ لیتا ہے. برصغیر کی تمام زبانوں کی ماں سنسکرت ہے تو کیا ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسکے الفاظ میں اردو زبان میں استعمال کو نوٹس کرینگے؟ یا دیگر زبانیں بولنے والے ایسا کرتے ہیں؟
دنیا کی تمام زبانیں دوسری زبانوں کے الفاظ قبول کرتی ہیں تو اس پر اعتراض بلاوجہ ہے.
اردو زبان رابطے کی زبان کیوں قرار دی گئی؟
اس سوال پر بھی زناٹے دار تھپڑ پڑنا چاہئے. قائد اعظم کو الزام دینے سے قبل انگریزوں کو الزام دیں جنھوں نے ڈیڑھ صدی قبل ہندی یعنی اردو کو ہندوستان کی رابطے کی زبان قرار دیا. آج ستر برس بعد پورے جنوبی ایشیاء میں اردو، ہندی بولی اور سمجھی جاتی ہے. سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی بھارتی فلموں کی وجہ سے اردو یعنی ہندی با آسانی سمجھی جاتی ہے. بالی وڈ بھی ہندی میں ہے ورنہ اسے قدیم سنسکرت میں ہونا چاہئے تھا. باقی زبانوں کی اپنی اہمیت ہے اور انھیں قومی زبانیں قرار دینے سے کسی نے نہیں روکا. ہم بھارت کی طرح علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں دیتے؟
کیا اس سے بھی ہمیں قائد اعظم نے 70 برس سے روک رکھا ہے؟ علاقائی تو چھوڑیں اردو سے اپنا اشرافائی رویہ دیکھ لیں.
ہجرت کا المیہ، یہ تقسیم کا قصور ہے؟
تقسیم کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی ہلاکت پر بہت واویلا کیا جاتا ہے جیسے دنیا میں آزادی پھولوں کی گلدستے دیکر مل جاتی ہے. امریکہ کی تاریخ دیکھ لیں. جنگ آزادی 1776 اور خانہ جنگی 1860 میں کل ملا کر صرف پانچ لاکھ تو فوجی جان سے گئے. لاکھوں سویلین ہلاکتیں علیحدہ ہیں . 1917 کے روسی انقلاب کے بعد انقلابیوں اور حکومت کی جنگ میں 90 لاکھ افراد ہلاک ہوئے. تقریباً ہر دوسرے ملک کی ایسی ہی خونی داستان ہے. لیبیا، الجریا وغیرہ کی تاریخ دیکھ لیں. یہ ایک افسوسناک امر تھا اور ایک انسانی المیہ تھا. اسکی بنیاد پر پاکستان پر تبرہ کرنے کی تک نہیں بنتی.
یوں بھی پاکستان کے قیام کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے ہوا. بقول عمیر فاروق بھائی کہ تقسیم کی ہلاکتوں کے ذمہ دار جمہور کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے والے ہیں.
نظریہ پاکستان کا مغالطہ
نظریہ پاکستان، پاکستان کے قیام کی سب سے مضبوط دلیل تھا. ورنہ مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی ضرورت نہ ہوتی. نظریہ پاکستان اس استدلال پر کھڑا ہے کہ مسلمان اور ہندو دو مختلف اقوام ہیں اور اس وقت کے حالات میں انکا اکٹھے ہندوستان میں رہنا ممکن نہیں. یہ بات بھی تاریخ نے ثابت کر دی ہے. پاکستان ستر برس بعد قائم ہے. بنگلہ دیش بھی علیحدہ ہو کر بھارت سے نہیں ملا. بھارتی مسلمانوں کی علیحدہ شناخت بھی باوجود مشکلات کے برقرار ہے.
سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر نظریہ پاکستان درست تھا تو بنگلہ دیش کیوں علیحدہ ہوا؟ بالکل سامنے کی بات ہے تاریخ کی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ ملک پریکٹیکل انصاف پر چلتے ہیں. نظریات ملک بنا سکتے ہیں لیکن اسے برقرار رکھنے اور چلانے کے لئے علیحدہ نظریہ درکار ہوتا ہے. نظریہ پاکستان صرف قیام پاکستان تک تھا. اب پاکستان میں اسکی ضرورت نہ تھی. بنگلہ لوگوں کو انصاف ہی جوڑ سکتا تھا اور ایسا نہ ہوسکا. اسکا نظریہ پاکستان کی ناکامی قرار دینا جہالت ہی سمجھی جائے گی.
امریکہ اس نظریہ پر قائم ہوا کہ گوروں کے ٹیکسز ظالمانہ ہیں. لیکن آزادی ملنے کے بعد “امریکن ڈریم” امریکیوں کا نظریہ بنا. آزادی امریکی نظریہ بنا. شخصی، اظہار رائے، خیال و فکر کی آزادی وہ نظریاتی بنیاد ہے جس کی وجہ سے امریکہ چوں چوں کا مربہ ہونے کے باوجود آج بھی قائم دائم ہے. پاکستان کے قیام کے بعد ہمارا کوئی نظریہ نہیں رہا. ہم بھٹک رہے ہیں. ہمیں تو “نیشن آف گاڈ” ہونا چاہئے تھا. کوئی ایسا نظریہ ہوتا. لیکن ہم ” نیشن آف گاڈز” بن گئے. شخصی بتوں کے پجاریوں کی ایک قوم.
قائداعظم کا پاکستان سیکولر یا اسلامی؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ قائد اعظم جیسا بھی پاکستان چاہتے تھے اب یہ فیصلہ پاکستانیوں کا ہے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟ لیکن 11 اگست کی تقریر اور میثاق مدینہ کی چند شقیں سامنے رکھتا ہوں خود ہی اندازہ ہو جائے گا قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے. ویسے کچھ دن قبل منیر احمد منیر اس موضوع پر روزنامہ دنیا میں عمدہ کالم لکھ چکے ہیں.
میثاق مدینہ
یہ معاہدہ اللہ کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے قریش اور یثرب کے مسلمانوں اور انکی پیروی اور ساتھ جدوجہد کرنے والوں کے درمیان حکومتی تعلقات کو قائم کرنے کے لئے ہے. یہ اب ایک قوم ہیں. ایک امہ۔
11 اگست کو تقریر سے اقتباس
ہمیں یہ لازمی طور پر بطور آئیڈیل اپنے سامنے رکھنا ہوگا ( قائد اعظم تقریر کے پچھلے حصے میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کی لڑائیوں کے بعد امن سکون سے بطور برٹش شہری رہنے کی مثال دیتے ہیں)، تاکہ گزرتے وقت کے ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی تناظر میں نہیں کیونکہ وہ انکا انفرادی ایمان ہے بلکہ سیاسی تناظر میں بطور ریاست کے شہری کے۔
میثاق مدینہ کی ایک اور شق بات مزید واضح کرتی ہے.
جو یہودی اہل ایمان کی پیروی کرینگے (معاہدے کی) انکی مدد کی جائے گی اور انکے ساتھ برابری کا سلوک ہوگا۔
ہمیں نیشن آف گاڈ بننا ہوگا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}