صدر ٹرمپ نے یہ بیان روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ اپنی پہلی باضابطہ سربراہ ملاقات سے عین قبل دیا ہے جس کی امریکہ اور یورپ بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے دیرینہ اتحادی یورپی یونین کو اپنے ملک کا دشمن قرار دے دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بیان روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ اپنی پہلی باضابطہ سربراہ ملاقات سے عین قبل دیا ہے جس کی امریکہ اور یورپ بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔
اتوار کو امریکی ٹی وی ‘سی بی ایس نیوز’ کے ساتھ گفتگو میں اس سوال پر کہ ان کے خیال میں امریکہ کا سب سے بڑا دشمن کون ہے،صدر ٹرمپ نے کہا، “میں یورپی یونین کو ایک دشمن سمجھتا ہوں۔ آپ کو شاید وہ دشمن نہ لگیں، لیکن وہ دشمن ہی ہیں۔ اپنی گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس بھی بعض معاملات میں امریکہ کا دشمن ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے سے قبل اور اس کے بعد بھی یورپی یونین اور مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد ‘نیٹو’ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے برسلز میں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران بھی انہوں نے امریکہ کے روایتی اور دیرینہ اتحادی یورپی ملکوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
اتوار کو یورپی یونین کو دشمن قرار دینے کے بیان کی خبریں عام ہوتے ہی یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس پر فوری ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں ڈونلڈ ٹسک نے لکھا، “امریکہ اور یورپی یونین بہترین دوست ہیں۔ جو بھی یہ کہتا ہے کہ ہم دشمن ہے وہ جھوٹی خبریں (فیک نیوز) پھیلا رہا ہے۔”
صدر ٹرمپ کا یورپی یونی سے متعلق بیان اتوار کو ایسے وقت نشر ہوا جب وہ برطانیہ کا دورہ مکمل کرکے فن لینڈ کے لیے روانہ ہوچکے تھے جہاں پیر کو دارالحکومت ہیلسنکی میں وہ روس کے صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
خیال رہے کہ صدر پوٹن بھی یورپی یونین اور ‘نیٹو’ کے سخت مخالف ہیں اور ان دونوں تنظیموں کو خطے میں روس کے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے آئے ہیں۔
‘سی بی ایس’ کے ساتھ اپنی گفتگو میں صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ روسی ہم منصب کے ساتھ ان کی ملاقات کا کوئی برا نتیجہ نہیں نکلے گا البتہ اس سے کچھ بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس ملاقات سے انہیں بہت زیادہ امیدیں نہیں اور وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس ملاقات کا نتیجہ کیا ہوگا۔ برطانیہ سے ہیلسنکی روانہ ہوتے وقت صدر ٹرمپ نے کئی ٹوئٹس بھی کیے جن میں ان کا کہنا تھا کہ سربراہی ملاقات میں ان کی کارکردگی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، آخرِ کار انہیں تنقید کا نشانہ ہی بننا پڑے گا۔
اپنے ٹوئٹس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر اس سربراہی ملاقات کے نتیجے میں روس انہیں ماسکو کا شہر بھی دے دے تو ان پر یہ تنقید ہوگی کہ وہ سینٹ پیٹرز برگ بھی ساتھ کیوں نہیں لائے۔ ٹرمپ اور پوٹن اس سے قبل بھی مل چکے ہیں لیکن یہ دونوں صدور کے درمیان پہلی باضابطہ سربراہ ملاقات ہے جس کے باعث اسے خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔
تاہم اس ملاقات کے ایجنڈے سے متعلق تاحال دونوں حکومتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ صدر نے اپنے ٹوئٹس میں مزید کہا کہ بیشتر امریکی ذرائع ابلاغ قوم کے دشمن ہیں اور ڈیموکریٹس کو صرف رکاوٹیں ڈالنا اور کام بگاڑنا آتا ہے۔