323

اپنا وطن چھوڑنے کا المیہ-



اپنا وطن اور گھر چھوڑ کر کہیں اور جاکر بسنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ترک وطن کی بہت اہم وجوہات ہوتی ہیں اور کوئی یونہی اپنا گھر نہیں چھوڑتا۔
آئے روز میڈیا میں بیرون ممالک جانے والوں کی دل ہلا دینے والی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ جن مشکلات اور مصائب سے جو لوگ گذرتے ہیں اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں۔ دیار غیر اور غریب الوطنی میں کئی اپنی جان سے بھی جاتے ہیں اور جو کہیں پہنچ بھی جاتے ہیں انہیں سالوں سال مستقل ویزا کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کوئی اپنے پیچھے اپنے غریب والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر آیا ہوتا ہے تو کسی کے بیوی بچے ہجر کی آگ میں سلگ رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے بچارے انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اور ایسی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں کہ حضرت سلطان باہو ؒ کے الفاظ میں

 

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے تے ککھ جنہاں تیں بھارے ہو
تاڑی مار اڈا نہ باہو اساں آپے اڈن ہارے ہو

جب بھی کہیں دنیا میں پاکستانی تارکین وطن کے ساتھ کوئی المیہ پیش آتا ہے تو میڈیا میں اس کی بازگشت سنائی دینا شروع ہوجاتی ہے۔ اخبارات میں خبریں، تبصرے اور کالم شائع ہوتے ہیں۔ حکومت بھی اپنی بیداری کا ثبوت دینا شروع کردیتی ہے۔ کوئی تارکین وطن کو کوس رہا ہوتا ہے کہ یہ لوگ دنیا میں پاکستان کو بدنام کروا رہے ہیں اور کوئی حکومت کو مشور ہ دے رہا ہوتاہے کہ نگرانی سخت کی جائے تاکہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ کوئی بیرون ملک جانے والوں کو ملک میں ہی کر محنت کرنے اور روٹی کمانے کا مشورہ دے رہا ہوتا ہے تو کوئی اسے راتوں رات امیر بننے کا خبط قرار دیتا ہے، گویا جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانا کسی طور مناسب نہیں اور ایجنٹوں کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی اور جان کو موت کے منہ میں ڈالناکہاں کی دانش مندی ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کچھ لوگ یونہی بیرون ملک کے خبط میں مبتلا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثریت معاشی وجوہ کی بنا پر اپنا ملک، ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر انجانی منزلوں کی راہی بنتی ہے۔ ان ہجرتوں کی سب سے بڑی وجہ اپنے گھر والوں کو بہتر مستقبل کا حصول او ر اپنی حالت بہتر بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ آواز بھی سنائی دیتی ہے کہ اپنے ملک ہی میں محنت کریں تو باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یہ ایک جذباتی بات ہے کیونکہ موجودہ استحصالی نظام کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا کہنے والے خود اپنے بچوں کو کسی دوسرے ملک میں سیٹل کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ایک مزدور جتنی مرضی محنت کرلے زندگی کی آساشیں ایک طرف ، وہ بمشکل دو وقت کی روٹی پوری نہیں کرسکتا۔ اپنے بچوں کی تعلیم، علاج کے اخراجات ، سرچھپانے کے لئے گھر اور دوسری ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں۔ چھوٹے ملازم تو ایک طرف گریڈ سترہ کا افسر اپنی حلال کی کمائی سے صرف دال روٹی ہی چلا سکتا ہے۔ گھر اور گاڑی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی بچوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوا سکتا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی ہر کسی کو لازمی چاہیے۔ صحت، تعلیم، خوراک اور رہنے کے لئے گھرکی کسی ضرو ت نہیں۔عوام کو میگا پروجیکٹ اور بڑے منصوبوں سے غرض نہیں بلکہ وہ روز مرہ کی ضروریات کا حصول چاہتے ہیں ۔اس لئے ریاست کی ترجیح بنیادی ضروریات کی فراہمی ہونا چاہیے ۔ ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ غربت کفر کے قریب لے جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھوک اور افلاس سے پناہ مانگی گئی ہے۔ 
سویڈن اس وقت دنیا کی بہترین سماجی فلاحی مملکت ہے لیکن ایک وہ وقت بھی گذرا ہے جب اس ملک میں غربت اور افلاس کا دور دورہ تھا۔ ہزاروں سویڈش عوام معاشی خوشحالی اور بہتر مستقبل کے لئے ہجرت کرکے امریکہ چلے گئے۔ آج بھی امریکہ میں سویڈش شہروں کے نام پر بہت سے قصبے ہیں۔ سٹاک ہوم کے بعد سویڈش عوام کی سب سے زیادہ تعداد کسی سویڈن کے کسی شہر میں نہیں بلکہ شکاگو میں آباد ہے۔ اس کے بعد سویڈش عوام نے جدوجہد کی اور استحصالی نظام کو بدل کررکھ دیا ۔ مطلق العنان شہنشاہت کو آئینی بادشاہت میں بدل دیا۔ جمہوری انقلاب سے لوگو ں کو حقوق ملے۔ سماجی اور معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں کرکے عوام کو ایک بہترین فلاحی مملکت دی گئی ۔ عوام کو حقوق، تحفظ اور عزت نفس دیا۔ اب کوئی سویڈش معاشی وجوہات کی بنیاد پر ہجرت نہیں کرتا بلکہ انہیں امریکہ سے بہتر معاشرہ دستیاب ہے۔ آج سویڈن میں سب سے کم اجرت پانے والا بھی اپنی چھٹیاں کسی اور ملک میں گذاراتاہے۔ اس کے بچوں کو بھی وہی سکول میسر ہے جو باقی سب کے بچوں کے لئے ہے۔ صحت عامہ اور دوسری سہولتوں میں کوئی تفریق نہیں۔ سرکاری اداروں سے کام فون اور ای میل کے ذریعہ ہوجاتے ہیں۔ہر شہری کو عزت نفس ، جان و مال کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی ہے۔ نقل مکانی تب ہی رک سکتی ہے جب عوام کو زندگی گذارنے کی سہولتیں دی جائیں۔ جتنے بھی قانون بنالیں اور سخت اقدامات کرلیں پھر بھی ہجرتوں کا سفر نہیں رکے گا یہ صرف تب ہی رکے گا جب عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراوانی ہوگی۔ تعلیم، صحت ،انصاف، روٹی کپڑا اور مکان سب کی ذمہ داری ریاست کے سپرد ہوگی ۔پاکستان کے بالا دست طبقہ کو اس سے کوئی غرض نہیں اس لئے ایسے نظام کے حصول کے لئے عوام کو خود جدوجہد کرنا ہوگی۔ دنیا کے جن ممالک میں ہمارے لوگ بہتر مستقبل کے لئے جاتے ہیں وہاں بھی کبھی غربت اور استحصالی دور تھا لیکن وہاں کے عوام نے اپنی قسمت خود بدلی ۔ لوٹ کھسوٹ کے راج کو عوام نے خود بدلنا ہے اور جب تک ایسا دور نہیں بدلے گا لوگ اپنا ملک چھوڑتے رہیں گے اور تارکین وطن کے ساتھ درد ناک سانحے ہوتے رہیں گے۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں