309

اللہ ، امر، نُور اور رُوح ۔

(نوٹ: یہ تحریر صرف پوسٹ گریجُوئیٹس کے لیے ہے۔)

اللہ سے نُور ہے نُور ہی اللہ نہیں۔

نُور اللہ کا پہلا امر ضرُور ہے اور وہ بھی ایسا امر کہ جو تمام آسمانوں اور زمین سے پہلے کا اللہ کا ارادہ ہے۔

میرے پاس امر کی وضاحت کے لیے ارادے سے بہتر کوئی لفظ نہیں ورنہ امر ارادہ نہیں۔

امر ایک ایسی تخلیق کو کہتے ہیں جو ابھی ظاہر نہ ہُوئی ہو۔لیکن وجُود میں آچُکی ہُو۔

جیسے ایک سول اینجینئر جب کوئی نقشہ بنائے اور کاغذ پر اُتارے پھر وہ نقشہ عمارت کی شکل میں سامنے آئے پھر اُس عمارت میں کی الگ الگ منزِلوں میں الگ الگ کاروبارکے دفاتر میں الگ الگ لوگ کام کرنے لگیں۔ اینجینئر نے جب یہ نقشہ پہلی بار کاغذ پر اُتارا اُس سے چند لمحات پہلے یہ نقشہ مُکمل ہو کر اُسکے ذہن میں وجُود پا چُکا تھا۔

یہ نقشہ بنانے کے ارادے کے بعد اور نقشے کے کاغذ پر اُترنے سے پہلے کسی وقت امر بنا۔ اینجینئر کے امر میں عمارت کی منزلوں میں الگ الگ کاروباری دفاتر بھی تھے اور یہ بھی کہ اُن دفاتر میں کتنے لوگ کام کریں گے۔

پھر امرکی بُنیاد پر کنکریٹ کی بلڈنگ بنی یعنی تخلیق ہوئی دفاتر بنے اور لوگوں نے بلڈنگ میں کام شُروع کیا۔

یہ مثال بس امر کی وضاحت کے لیے ہے ورنہ اللہ کا امر اینجینئرکے امر کی طرح خام نہیں بلکہ حقیقی ہے اور اسکا پہلا امر یعنی نُور ہر تخلیق کی راہ ہموار کرتا ہے۔

نُور یعنی اللہ کا پہلا امر تو اللہ کے ارادے سے اُس وقت ہی بغیر کسی فطری قانُون کے وجُود میں آگیا جب کائنات کے بننے کے شُروع ہونے کا وقت آیا اور پھر اس پہلے امر یعنی نُور سے ایک پُورا عالمِ امر وجُود میں آیا۔

اس عالمِ امر کے انگنت مظاہر ہیں جس میں سے رُوح بھی ایک مظہر ہے۔

امر کےعالمِ امر میں جگہ پانے کے لیے کوئی قانُون یا اسباب نہیں بس اللہ کا ارادہ چاہیے ہوتا ہے

البتہ امر کے خلق کا حصّہ بننے کے لیے اسباب اور قوانین چاہیے ہوتے ہیں اور یہ قوانین اور اسباب اللہ کے پہلے امر یعنی نُور کے تحت ایک خاص ترتیب اور ترکیب سے بنتے چلے جاتے ہیں۔

نُور کے تحت تشکیل پانے والے امر انگنت ہیں اور رُوح بھی اُنمیں سے ایک امر ہے۔

صُوفیا اللہ کو نہیں بس اُسکے ایک امر کو پہچان لیتے ہیں اور بعض اسی امر کی دلکشی اور تجلِّیات کو خُدا سمجھ بیٹھتے ہیں

یعنی رُوحانیت کو خُدائیت سمجھ بیٹھتے ہیں۔

بہت کم اُس مقام پر یہ جان پاتے ہیں کہ نُور سے رُوح ہے,

اور اکتاب ہی نُور ہے

اور نُور ہی پہلا امر ہے

اور الکتاب کی دُنیاوی علامت تو قُرآن ہے

جیسے حرم پاک اُس حرم کی علامت ہے جسے قیامت برپا ہونے سے پہلے اُٹھایا جائے گا۔

یعنی الکتاب سے ہی ہر امر ہے

اورروح تو بس ایک امر ہے۔

جو صُوفی یہ جان لے وہ ضرُور واپس قدم بڑھائے گا

جو نہ جان پائے وہ ایک امر یعنی رُوح کو خدا مان کر اور اُسکی خُود میں موجُودگی پہچان کر انالحقّ کہہ بیٹھے گا ۔

جو اللہ کے کھرب ہا کھربوں میں سے فقط ایک بلواسطہ امر یعنی رُوح کو خُدا سمجھ بیٹھے اُسکی عقل پر ماتم ضرُوری ہے۔

تبھی میں فقیری کو مُلائیّت جیسی ہی سزا کہتا ہُوں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں