کچھ دن قبل ایک امریکی ٹی وی پر ایک فیمنسٹ(feminist) خاتون موجود تھیں جن کی یونیورسٹی نے لفظ ویمن ( Woman) کو ڈکشنری سے خارج کرنے کی قرارداد منظور کی تھی کیونکہ اس میں لفظ مین ( Man) آتا تھا. مزید برآں خاتون صاحبہ سے پوچھا گیا کہ اگر مانچسٹر نام والے شہر جن کے نام میں مین آتا ہے انکا کیا کریں تو موصوفہ کا جواب تھا کہ ظاہر ہے کہ یہ نام عورتوں کے لئے افینسو ( offensive) ہیں تو ختم کرنے ہونگے. اس پر اینکر بولا کہ پھر آپ گولڈ مین سیکس ( Goldman Sachs) کو یہ کہہ سکتی ہیں کہ آپ نام بدلیں؟ آنجناب معصومیت سے بولیں کہ ہم وہاں سے شاپنگ نہیں کرینگے. اینکر مسکرا اٹھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ گولڈ مین سیکس ایک مالیاتی ادارہ ہے کوئی سپر سٹور نہیں. وہ خاتون لفظ ( Person) کو عورت کے لئے استعمال کرنا چاہتی تھیں جس پر کمنٹس میں سوال کیا گیا کہ اس لفظ میں بھی ایک مردانہ لفظ سن( Son) آتا ہے اسکا کیا کرینگے؟ یہ روداد موجودہ فیمنزم جدوجہد کو لطیفہ بنا رہی ہے. مغرب میں بھی ایسی موومنٹ ایلیٹ طبقے نے ہائی جیک کرکے بے سروپا مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیں ہیں. پاکستان میں بھی ماڈرن طبقہ اسے ہائی جیک کر چکا ہے. یہ چیز عورتوں کے حقیقی مسائل کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
عورت مرد کی برابری اور حقوق کی بحث نہ ختم ہونے والی ہے. عورت کو جدید سائینس سے پرکھیں، مذہب سے یا تاریخ و فلسفہ سے اسکا بنیادی کام کئیر، پرورش، حوصلہ، محبت اور خوبصورتی ہے اس سے ہٹا کر اسے روڈ( rude) تیکھا کماؤ پوت بنانا آزادی نہیں فطرت کے خلاف بغاوت ہے جو ہمیشہ ناکام رہی ہے اور رہے گی. کام کریں, اپنے خواب پورے کریں منصفانہ آزادی ہو سب باتیں درست مگر ان نیچرل برتاؤ( unnatural behaviour) والی باتیں میں صرف عورتوں کی ہمدردی میں قبول نہیں کر سکتا. موجودہ فیمنزم(Feminism) کلچر عورتوں کے ناجائز حقوق کے لئے ہے جو مغرب میں بھی مذاق بنا ہوا ہے. ہم بھی حقیقی مسائل کے جدوجہد کریں تو بات بنتی ہے۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہاں عورت بطور ٹرافی یا خزانہ کے سنبھال سنبھال کر رکھی جاتی ہے. قدم قدم پر اسکی حفاظت کرنی بھی پڑتی ہے اور اس بہانے اس پر ناجائز دھونس بھی جمائی جاتی ہے. یعنی ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر بدترین صنفی امتیاز اور خواتین کی حقوق سلبی کا مجرم ہے. اسلام یہ حقوق دیتا ہے یا وہ دیتا ہے یہ سب رستے زخموں پر مردانہ پردہ پوشی اور مذہب کا اپنے مفاد میں گھناؤنا استعمال ہے. عورت کیا پاکستان میں مجموعی طور پر انسانوں کے حقوق ہی نہیں ہیں. یہاں صرف بااثر کا حق ہے۔
عورت مرد کے حقوق کی تفریق کے بجائے مل کر اپنے انسانی حقوق لینے کی جدوجہد کریں تو بہت بہتر ہوگا۔
باقی ہر میاں بیوی ایک آزاد ادارے کی طرح ہے انکی مرضی وہ اپنے لئے کیا رول مناسب سمجھتے ہیں. بس شرط یہ ہے کہ مرد و عورت کے رولز کو ریورس کرنا ممکن نہیں ہے. انیس بیس کا فرق بھی ہو تو کبھی عورت فیصلہ سازی میں غالب ہوگی کبھی مرد، مکمل انصاف کے قریب رہنا ہی مقصد ہونا چاہئے. مرد ماں نہیں بن سکتا ہاں عورت باپ بن سکتی ہے لیکن پھر وہ ماں کا رول نہیں نبھا سکے گی. باقی ہر زیادتی پر پاکستان کے مرد قصور وار ہیں اسکے لئے اگر مگر کی گنجائش نہیں ہمیں ذمہ داری اور بہتری کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}