ملکی ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ نظام تعلیم کے ذریعے مختلف ممالک عوام کی ذہنی بالیدگی اور شعوری ترقی کے لئے نصاب تعلیم کا تعین کرتے ہیں جو عوام کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی ترقی اور تربیت کے لئے ضروری ہے۔ ممالک کی ثقافت ان کے نظام تعلیم سے اجاگر ہوتی ہے۔ ہر ملک اپنے نظام تعلیم کو خامیوں سے پاک رکھنے کے لئے مختلف اقدامات کرتا ہے تاکہ عوام بامقصد اور معیاری تعلیم سے استفادہ کر سکیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی میں تعلیم اور تعلیمی ادارے ایک اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلباء کے لئے ملازمت کے مواقع کمیاب ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تمام تر تعلیمی دورانئے میں طلباء کی نہ ہی ذہن سازی پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی کیریئر کونسلنگ کی جاتی ہے۔صرف اور صرف نصاب کو مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ تعلیمی منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ ہمیں فطرت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے بچوں کی ذہن سازی کرنا چاہئے۔ قدرت نے تمام افراد کو مختلف قابلیت اور صلاحیت کا حامل بنایا ہے۔ جس کو تلاش کرنا اساتذہ کرام کا کام ہے۔ اساتذہ اگر مخصوص قابلیت کے حامل ہونگے تو مثبت نتائج اخذ کئے جا سکیں گے۔ طلباء کی ذہن سازی اور کیرئیر کونسلنگ کے ذریعے مخصوص میدان عمل کا انتخاب ہو سکے گا اور طلباء اس میں مہارت پیدا کر سکیں گے۔ لیکن ان تمام معاملات کو دیکھنے کے لئے حکومتی اداروں کا ان معاملات میں دلچسپی لینا ضروری ہے جس کی ہر دور میں کمی رہی ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ اپنے مسائل میں گھرے نظر آتے ہیں۔کسی کا کوئی مسئلہ ہے تو کسی کا کوئی۔ تعلیمی اداروں میں اکثر مختلف اساتذہ کے گروپ بنے ہوتے ہیں۔ ایک گروپ دوسرے گروپ کو نشانہ بنانے یا نیچا دکھانے میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس سے طلباء کی نفسیات پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ استاد اپنے طلباء کے لئے ایک آئیڈیل کا درجہ رکھتا ہے۔ صرف تنخواہیں اور گریڈ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اساتذہ کرام کا طرز عمل ایسا ہونا چاہیئے کہ طلباء اپنی تعلیمی تکمیل کے بعد معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم اور متعلقہ اداروں کا فرض بنتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آج تک تمام حکومتیں خاموش رہیں اور طلباء اساتذہ کے رویوں کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہتے رہے۔
کالجوں کی حالت کو لیں ہر آنے والی حکومت مفت تعلیم کا نعرہ لے کر آتی ہے اور فیسوں میں اضافہ کرکے واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے لیڈران جب سیاسی تقاریر کرتے ہیں تو زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور جب حکومتی ایوانوں میں آتے ہیں تو ان کا طرزِ عمل ان کے قول سے میل نہیں کھاتا۔ایسی ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں کہ نوجوان نسل تعلیم کے حصول سے دور ہو رہی ہے۔ اساتذہ نے الگ سےاکیڈمیاں قائم کی ہوئی ہیں۔ غرض تعلیمی نظام جو کسی بھی قوم اور ملک کی اساس ہوتا ہے۔ وہ کرپشن اور مال بنانے کا ذریعہ بنا ہؤا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام اساتذہ کا یہی کردار ہے لیکن اچھے اساتذہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور انہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام کچھ اچھے طلباء پیدا کر رہا ہے۔ لیکن جو سائنسدان، سکالر، فلاسفر، انجینئر اور ڈاکٹر پیدا ہو رہے ہیں وہ ملکی بد انتظامی سے مایوس ہو کر روزگار کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے لیڈران نے آپس کی لڑائیوں اور اور کرسی کے چکر میں ملک کو اس قابل ہی نہیں ہونے دیا کہ ایسے ہونہار طالب علم اپنے ملک میں رہتے ہوئے ملک کی ترقی اور بھلائی کے لئے کچھ کر سکیں۔ معاشرتی طور پر طلباء تعلیمی تکمیل کے بعد اتنے دباؤ میں آتے ہیں کہ روزگار کے چکر میں غلط اور جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے مختلف اقسام کے وظائف دیتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں تعلیمی میدان میں کام کرنے کے لئے بھی وقت مہیا کیا جاتا ہے تاکہ طلباء تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ عملی میدان میں بھی مہارت پیدا کریں۔ نصاب کی تکمیل کے بعد اپنے آپ میں مایوسی کا شکار نہ ہوں اور کسی نہ کسی جاب پر مصروف رہیں تاکہ ان کی صلاحیتیں نکھرتی رہیں۔ طلباء کے حصول تعلیم کے بعد یہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ فارغ التحصیل طلباء کو مناسب روزگار مہیا کرے یا پھر انہیں ان کی تعلیم کے مطابق بغیر سود قرض مہیا کرے اس کاروبار سے متعلقہ تربیت مہیا کرے تاکہ وہ طلباء جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد مایوسی کا شکار ہیں ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں اور معاشرے میں اپنا مقام پیدا کریں۔
پاکستان کی یونیورسٹیاں بھی آئے روز اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے فیسوں میں بے لگام اضافے پر تلی رہتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں مڈل کلاس طبقے کے لئے تعلیم کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور صرف ایک مخصوص طبقہ ہی تعلیمی سہولیات سے استفادہ کر سکے گا۔ اللہ نہ کرے میرے وطن میں ایسا کوئی دن آئے۔ ملک کا تعلیمی بجٹ برائے نام حصہ پاتا ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ اساتذہ اپنے معاشی مسائل سے آزاد ہو کر تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں اور تحقیقی کاموں میں اپنے فرائض کو پورا کر سکیں۔ تحقیق کے میدان میں ہمارے طلباء کا حصہ بہت کم ہے۔ طلباء کو مصروف رکھنے کے لئے مختلف پراجیکٹس تیار کرنا چاہئیں اور ان کی تکمیل میں طلباء کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرنا چاہیئے۔
ملکی تعلیمی اداروں میں سیاست کا بہت عمل دخل ہے تعلیمی اداروں میں جو سیاست ہو رہی ہے وہ منفی سیاست ہے جو تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے لئے طلباء کو استعمال کرتے ہیں۔ طلباء اپنے تعلیمی اداروں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں جو انکی معاشی زندگی میں کام آتا ہے جس سے عملی میدان میں ایک سمت متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر طلباء تعلیمی اداروں میں منفی رحجانات اور کرپشن کا سامنا کریں گے تو عملی زندگی میں ہمیں ایک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تعلیمی اور عملی زندگی کے اس خوفناک بحران سے نمٹنے کے لئے ارباب اختیار کو جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔