Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
297

سول ملٹری تعلقات، اور طاقت۔

“پاور” کو سمجھے بغیر سول ملٹری تعلقات اور انکی کشمکش کو نہیں سمجھا جا سکتا. حسب روایت ہمارے دانشوروں کی اکثریت دلیل اور تحقیق سے تہی دامن ہو کر صرف اپنی اپنی نفرتوں اور تعصبات کو مشعل راہ بنا کر تجزیے چھاپ رہے ہیں۔

مشہور امریکی پاور ایکسپرٹ ایرک لو(Eric Liu) کے مطابق کسی بھی معاشرے میں طاقت کے مراکز چھ ہوتے ہیں.

1. فزیکل

2. ریاستی

3. نظریاتی

4. عددی

5. مالی

6. روایات

ہم اگر پاکستان میں ان طاقت کے مراکز کو دیکھیں اور جانچیں تو ہمیں بہتر طور پر سمجھ آ سکے گی کہ طاقت کس کے پاس ہے؟ کیوں اور کیسے ہے؟ اور کس کے پاس ہونی چاہئے.

فزیکل طاقت سے مراد اسلحے، جسمانی، تشدد اور قوت کی ہے. بلا شک و شبہ فوج اس طاقت کا مرکز ہے. پاکستانی سول سوسائٹی اور سیاست دان اس طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں. دنیا بھر میں فوج اور پولیس اور دیگر امن قائم رکھنے والے ادارے ہی اس طاقت کا منبع ہوتے ہیں.

ریاستی طاقت حکومت کی پاور ہوتی ہے. تمام ریاستی ادارے بشمول فوج سول اداروں اور عوامی نمائندوں کے تابع ہوتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں عملاً ایسا نہیں ہے. لیکن پاور کا یہ مرکز سول ہے. پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے اسے میں آگے چل کر بیان کرونگا.

نظریاتی طاقت میں اخلاقی برتری اور اس ملک کے نظریہ کی بالادستی کی پاور ہوتی ہے. یہ پاور مرکز سول ملٹری سے بالاتر ہے. جو بھی عوام کی اکثریت کو متاثر کریگا وہ طاقت حاصل کر لے گا. مگر پاکستان میں اکثریت فوج ، ایجنسیوں کو سیاستدانوں سے زیادہ پاکستان کے بنیادی نظریے سے ہم آہنگ اور اخلاقی طور پر بہتر سمجھتی ہے. یہ تاثر غلط ہے یا درست اس پر بھی آگے بات ہوگی.

عددی طاقت سیدھا سادہ نمبروں کا کھیل ہے. یہ سول بالادستی کا مرکز اعلی ہے یا ہونا چاہئے . سیاستدان عوام کی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے. فوج یا ایجنسیوں کو ووٹ نہیں ملتے.

پیسے کے بل بوتے پر پاکستان میں کاروباری، مذہبی اور میڈیا کا طبقہ بہت طاقت حاصل کر چکا ہے. مگر اب بھی مال و دولت میں سیاستدانوں کو کسی بھی طبقے پر برتری حاصل ہے. فوج پاکستان کے ہر دوسرے شعبے میں گھسی بیٹھی ہے مگر اپنے وسائل کے لئے وہ سول بجٹ کی محتاج ہوتی ہے.

روایات، کلچر، سوشل اسٹرکچر تو معاشرے کی طاقت ہے. اس پر مذہبی طبقے کی اجارہ داری ہے. سیاست دان اور فوج دونوں کو اس پاور بیس میں مذہبی طبقے کی پیروی کرنا ہوتی ہے.

ان چھ پاور کے مراکز میں دو ریاستی اور عددی مرکز تو سیاستدانوں کے ہیں. فزیکل طاقت فوج کی ہے. نظریاتی طور پر بھی فوج غالب ہے. مالی طور پر سیاستدان اور فوج میں سخت مقابلہ ہے مگر سیاستدان آگے ہیں. روایات میں مذہبی طاقت مضبوط ہے. اب طاقت کے تین مراکز میں واضح برتری کے باوجود پاکستان میں سیاست دان کمزور کیوں ہے؟

دنیا بھر میں ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فوج کو ہمیشہ سول اداروں کی ناکامی اقتدار میں آنے پر مائل یا مجبور کرتی ہے. اگر کبھی امریکہ، برطانیہ، جرمنی، سویڈن، اسرائیل، بھارت، چین، روس میں دنیا کی مضبوط ترین افواج کے باوجود مارشل لاء نہیں لگا تو اسکی بنیادی وجہ وہاں کے سیاستدانوں اور سول اداروں کی مضبوطی ہے. کیا پاکستان کی فوج ان تمام ممالک کی فوج سے مضبوط ہے؟ بہتر ہوسکتی ہے بری ہوسکتی ہے مگر یہ پاور فل ممالک بہت طاقتور افواج رکھتے ہیں.

سول ادارے کیا ہیں؟ ذرا غور کریں. پارلیمنٹ ہے جس کو ہمارا کوئی بھی حالیہ وزیراعظم توجہ نہیں دیتا بلکہ جانا بھی توہین سمجھتا ہے. فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے. عدلیہ ہے جو کرپشن اور اقرباء پروری سے بھری پڑی ہے اور کسی وزیراعظم کو اس میں بہتری لانے کی توفیق نہ ہوسکی. عوام کو عدلیہ سے انصاف نہیں ملتا. سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی بھی جمہوری ملک میں مضبوط ہونی چاہیں لیکن پاکستان میں یہ خاندانی جاگیر بنی ہوئی ہیں. الیکشن کمیشن ہے جو کبھی بھی منصفانہ الیکشن کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکا. پولیس ہے جو جرائم کا سدباب کرنے میں ناکام ہے.

ان سول اداروں کی ستر برس سے مسلسل ناکامی ہمیشہ فوج کو اقتدار میں آنے کے لئے اور عوام کو فوج کی حمایت پر آمادہ ہونے کے واسطے تیار کرتی ہے.

ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ایشو یہ ہے کہ بطور ادارہ برصغیر میں فوج پچھلے ڈیڑھ سو برس سے غالب ہے. انکی طاقت اور لوگوں پر رعب قائم ہے. گو کہ اس میں کمی آ رہی ہے. سول ادارے پرفارمنس میں اکا دکا اوقات کے علاوہ فوج کو پیچھے نہیں چھوڑ سکے. یوں فوج کے ذہن میں اپنی بالادستی کا تصور راسخ ہوچکا ہے. بھارت دشمنی کی وجہ سے فوج کو ہمیشہ عوامی اسپورٹ بھی رہی ہے. کہا یہ جاتا ہے کہ فوج کو طاقتور لیڈرز پسند نہیں اور وہ بھارت سے مستقل دوستی کو اپنی کمزوری سمجھتی ہے اس لئے نواز شریف اور بھٹو کو فارغ کیا گیا.

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی عوامی طور پر مقبول اور مضبوط لیڈرز رہے ہیں. بھٹو، بینظیر، نواز شریف اور عمران خان چند نمایاں مثالیں ہیں. ایشو تب پیدا ہوتا ہے جب مقبول لیڈرز اپنی ڈومین پر اپنی مہارت اور پرفارمنس ثابت نہیں کر پاتے اور فوج کو اور اسکی پالیسیوں کو بدلنے کا مشن اٹھا لیتے ہیں. سوائے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ہر مارشل لاء میں حکمرانوں نے اپنی ناقص کارکردگی اور بار بار کی وارننگ کے باوجود اپنی حاکمیت اور کنٹرول حاصل کرنا چاہا تو فوج نے اپنی فزیکل طاقت کا عملی مظاہرہ کر دیا.

کیونکہ فوج کے اندر بالادستی کا تصور قائم ہے جو ذرا سے اٹیک پر پلٹ کر حملہ آور ہوتا ہے اسے نا مکمل پاور بیس کے ساتھ کوئی بھی سیاست دان شکست نہیں دے سکتا. سیاستدان کو فزیکل پاور بیس کے علاوہ ہر پاور بیس میں اپنی برتری ثابت کرنا ہوگی. دوسری جانب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے مراکز کم ہوتے جا رہے ہیں اور مستقبل میں انکا کنٹرول کم ہوسکتا ہے مگر سوائے سیاستدان کی اخلاقی اور صلاحیتوں کی برتری کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی سرنگوں نہیں ہوسکے گی. جب سیاستدان نظریاتی پاور بیس میں بھی برتر ہونگے تو بھارت دشمنی پر فوجی ایج ختم ہوجائے گا.

جہاں تک نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی بات ہے تو مقدمہ ہی دلائل سے عاری ہے. نواز شریف نے کسی سول ادارے کی تکریم نہیں کی، بلکہ عدلیہ، پولیس، پارلیمنٹ اور اپنی جماعت کو تباہ کیا، اسے بہتر بنانا تو دور کی بات ہے. چھ پاور مراکز میں سوائے مالی کے ہر پاور بیس پر وہ نا اہل ثابت ہوئے. روایات اور کلچر میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائے، نظریاتی سطح پر پاکستانیوں کو نیا نظریہ نہیں دے سکے، ریاستی حکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے آگے گھٹنے ٹیکے بیٹھی رہی، عددی طاقت دھاندلیوں میں گم رہی پھر کس برتے پر انھیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جائے؟ دراصل وہ فوج کو بغیر کسی پاور بیس کے صرف بدلہ لینے کے لئے نیچا دکھانے کےخواہشمند تھے. اس میں بھی وہ جرات دکھانے میں ناکام رہے.

پاکستان سول ملٹری تعلقات میں بہتری پس پردہ سازشوں کا بجائے سامنے آ کر عملی اقدامات اور ایک دوسرے کے پاور مراکز کو تسلیم کرنے سے آئیگی. یہ کام صرف سول حکمران کر سکتے ہیں.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’}

اپنا تبصرہ بھیجیں