292

اسلام میں ترقی کا تصور

اسلام کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا مشن ایک خدا کے تصور کی بنیاد پر عادلانہ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام قائم کرنا ہے۔ اسلام اپنے دور کے طاقتور نظاموں کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے جو کہ اس کی نظر میں انسانی ترقی کا دشمن ہے۔ایسا دور جس میں عظیم الشان عمارتیں تعمیر کی گئی ہوں اہرام مصر جیسے عجوبے تعمیر ہوں نت نئے شہروں کا وجود عمل میں لایا گیا ہو اور پر شکوہ محلات تعمیر ہوے ہوں وہاں اسی نظام کو انسانیت کی ترقی کا دشمن قرار دیا گیا۔


حضرت شاہ ولی اللہ اپنی تصنیف حجت اللہ بالغہ میں رومیوں اور دوسری عظیم سلطنتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کے ادوار میں بڑی خرابی یہ تھی کہ وسائل معیشت چند مخصوص طبقہ تک محدود ہو گئے تھے جبکہ پوری قوم کو غلام بنا کے ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا اور ان کو فقط اتنا دیا جاتا تھا کہ جس سے وہ زندہ رہ سکیں۔ جبکہ حکمران طبقہ تمام وسائل پر قابض ہر طرح کی عیاشیوں میں ڈوبا ہوا اور ہر طرح کی شاہ خرچیوں میں ملوث تھا۔
دوسرا بڑا مسئلہ سیاسی آزادی کا نہ ہونا تھا۔ حکمران خدا کے درجہ پر ہوتا اور ہر قانون سے بالا تر۔ حکمران طبقہ کھل کر عوام پر ظلم کرتا اور کوئی قانون اس کو روکنے والا نہیں ہوتا تھا۔

ایسے ماحول میں اسلام کا ظہور ہوا اور ایک خدا کے تصور کی بنیاد پر حکمرانی کے اصول بنائے گئے اور ترقی کا معیار تعمیرات اور دکھاوے کے بجائے انسانوں کی شعوری بلندی قرار پائی۔ ہر انسان کے لئے بنیادی سیاسی و معاشی حقوق کی آواز اٹھائی گئی۔ حضور اکرم نے فرمایاجو سردار پہنے گا وہی اس کا غلام پہنے گا۔جو سردار کھائے گا وہی غلام کھائے گا۔جو سزا امیر کی وہی غریب کی۔ اس بات کو سن کر ان کے اپنے خاندان کے مکہ کے سرداروں نے مروجہ نظام میں تبدیلی کی مخالفت کی اور بار ہا کہا کہ ہر بات مانی جا سکتی ہے لیکن غلام اور آقا میں برابری کی سطح پر معاملات تسلیم نہیں۔ بہر حال اسلام کے عدل کا نظام مدینہ میں قائم ہوا تو بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق کے حوالے سے ایسی قانون سازی کی گئی کہ جس سے معاشرتی انصاف ملے اور بستی کا سرمایہ گردش میں رہے۔ دو منزلہ مکان کی تعمیر پر پابندی۔ سادگی۔کسی کا پڑوسی بھوکا نہ رہے۔ ہر شخص صدقہ خیرات کے ذریعے سے اپنے گناہوں سے پاک ہو ۔ اپنی ذات سے زیادہ دوسروں پر خرچ کرنے کا ماحول بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ جیںسی چھوٹی سی بستی کے لوگ افلاس سے باہر نکلے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ مدینہ میں کوئی ذکوتہ لینے والا نہ رہا۔
انسانوں کا شعور بلند کیا۔ انسانوں کی سوچ جسمانی حاجات اور روزمرہ کی معاشی پریشانی سے نکل کر قومی اور بین الاقوامی نظاموں کی تشکیل کی طرف گئی۔ اپنے شعور کی طاقت سے دستیاب وسائل کے بہتر استعمال سے دنیا کے نظاموں کو شکست دی۔ اور علوم و فنون کی ترقی میں پوری دنیا کو چند سال میں پیچھے چھوڑ دیا۔قوم جب اجتماعی طور پر ترقی کرتی ہے وہی حقیقی ترقی ہوتی ہے۔ چند مخصوص طبقہ کا دولت مند ہو جانا ظلم ہے جس کا انجام خاتمہ ہی ہے چاہے فرعون جیسی عظیم سلطنت ہی کیوں نہ ہو۔ آج جاپان چائنا جیسے ملک بھی نیشن بلڈنگ کی بنیاد پر ترقی کے تصور کو لے کر چل رہیں ہیں جو اسلام نے ہمیں 1400 سال پہلے ہی عملی طور پر کر کے دکھا دیا۔ ہمیں چاہیے کہ نیشن بلڈنگ کے تصور کو سمجھیں اور ایسا نظام قائم کرنے کی جمہوری جد و جہد کریں جس میں قوم کی شعوری ترقی ممکن ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں