Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
253

کے پی حکومت کے پن بجلی منصوبوں کی حقیقت۔

ہمارے فیس بک کے ایک محترم دوست نے کچھ دن پہلے کے پی کے چھوٹے پن بجلی کے پراجیکٹس کے بارے میں ایک تنقیدی مضمون لکھا جس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور مختلف ن لیگی دوستوں نے ہمیں ان باکس کر کے طعنے بھی مارے کہ یہ لے تبدیلی۔ سچی بات ہے کہ میں تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے کی وجہ سےان کے اعداد و شمار دیکھ کر بہت دل برداشتہ ہوا۔ہمارا دل بھی کیا گیا خان کی ملامت کی جائے۔جیسا کہ انہوں نے کہا کہ خان صاحب اپنا تمسخر اڑانے کے لئے کسی کے محتاج نہیں لیکن دل میں یونہی خیال آیا کہ ہو سکتا ہے عمران سے واقعی کوئی بونگی وج گئی ہو کیونکہ وہ ایک نان ٹیکنکل آدمی ہے لیکن کے پی میں بجلی بنانے کا ایک محکمہ بھی ہے۔ جن کا کام ہے یہی ہے۔ کیا محکمے کو مائیکرو منی اور سمال پاور پراجیکٹس کا فرق ہی نہیں معلوم؟اسی شبے کی بنیاد پر کچھ دوستوں سے معلومات لینے کی ٹھانی۔

وہی معلومات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں فیصلہ آپ خود کر لیں۔

اگر ہمارے یہ محترم دوست تھوڑی سی زحمت کر لیتے تو PEDO کی ویب سائیٹ پر جگہ جگہ لکھا MMPPHs جو مخفف ہے Mini/ Micro Hydro power Projects کا. یعنی کہ حکومت کو یہ پتہ ہے کہ یہ مائیکرو پاور پراجیکٹس ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مائیکرو کے ساتھ یہ منی والی پخ کیوں لگادی؟ جبکہ مذکورہ مضون میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کے پی کا کوئی بھی پراجیکٹ 1 سے 100کلوواٹ ذیادہ ہے ہی نہیں۔ (تعریف کے مطابق 5 سے 100 کلوواٹ کے پراجیکٹ کو مائیکرو پاور کہا جاتا ہے۔)

لیکن یہ بات غلط ہے کہ کے پی تمام پراجیکٹ 1 سے 100کلوواٹ کے ہیں۔حقیقت میں کم سے کم پراجیکٹ کی پیدواری صلاحیت 15کلوواٹ ہے اور ذیادہ سے ذیادہ 500کلوواٹ ہے۔ یعنی کے پی حکومت نے درست طور پر اس کا نام مائیکر منی پاور پروجیکٹ رکھا گیا ہے۔

جن 250 پلانٹس کی تکمیل کا اعلان کیا گیا ہے کہ ان میں سے 23 پلانٹ 100 کلو واٹ سے ذیادہ ہیں اور باقی رہ جانے والے 100پراجیکٹس میں سے بھی ذیادہ تر پلانٹ 100کلو واٹ سے اوپر کی پیدواری صلاحیت کے ہوں گے یعنی منی پاور پراجیکٹ۔ صاحب مضمون کے اپنے ہی لکھے گئے مضمون میں ایک تضاد ہے ۔ انہوں نے پہلے یہ بتایا کہ تمام پاور پلانٹس کے استعداد 1 سے 100کلوواٹ کے درمیان ہے پھر اسی مضمون میں ایک جگہ لکھا کہ ایک پلانٹ کی اوسط پیداوری صلاحیت 98 کلو واٹ ہے۔ اگر 35 میگاواٹ کو 356 پر تقسیم کیا جائے تو ہر پلانٹ کی کم سے کم ویلو تقریباََ 98 کلوواٹ بنتی ہے۔ اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ سادہ ضرب تقسیم کر کے یہ بتا دیں کہ 356 میں سے کتنے پاور پلانٹ 1 کلوواٹ کے ہیں؟(اگر ایک پاور پلانٹ کی پیدواری صلاحیت ذیادہ سے ذیادہ 100 کلوواٹ مان لی جائے تو؟)

مضمون میں آگے چل کر انہوں نے بتایا کہ یہ پراجیکٹ بہت ہی مہنگے ہیں اور درست طور ایک پراجیکٹ کی اوسط بھی نکالی۔ لیکن پیداواری طور پر ہر پلانٹ کی لاگت مختلف ہے ۔اگر اوسط نکالی جائے تو 1کلوواٹ کی لاگت ایک لاکھ چالیس ہزار روپے ہے اور اس حساب سے 15کلوواٹ کے پلانٹ کی لاگت 21 لاکھ ہے، 20 میگاواٹ 28لاکھ اور 500کلوواٹ کی لاگت سات کروڑ روپے۔ یہ نہایت مناسب قیمت ہے۔ چونکہ انہوں نے کشمیر کے کچھ پراجیکٹس کا حوالا دیا تو میں پیدواری لاگت کا موازنہ پیش کردیتا ہوں۔ کیل وادی نیلم میں 750 کلوواٹ کا ایک پراجیکٹ 2016 میں بارہ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے میں مکمل ہوا۔ اس کے ایک کلو واٹ کی لاگت ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار روپے ہے۔ کے پی کے پراجیکٹ کی لاگت کشمیر کے مقابلے میں 28ہزار روپے کم ہے۔

پیڈو کے اپنی فزیبلٹی کے مطابق یہ تمخینہ ہے کہ تمام علاقوں میں ایک گھر کی بجلی کی ضرورت 500واٹ ہے یعنی 1کلوواٹ میں 2 گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ اور 35 میگاواٹ سے 70 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکے گی۔ لیکن صاحب مضمون نے پتہ نہیں کس طرح ٹوٹل یہ فگر دیا کہ 35 کلوواٹ صرف 7 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کرسکتا ہے جبکہ 35میگاواٹ سے ایک چھوٹے شہر کو چلایا جاسکتا ہے۔

آگے چل کر انہوں نے بتایا کہ مائیکرو پراجیکٹ کو چلانا آمدن کے حساب سے ممکن ہی نہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ پراجیکٹس چلانے ناممکن ہوتے تو اتنی capacity کے ٹربائن متروک ہوچکے ہوتے۔عموماً مائیکرو پراجیکٹ مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر چلائے جاتے ہیں. محکمے کی طرف سے رضاکاروں کو ٹریننگ دی جاتی ہے جو ریونیو کلیکشن بھی کرتے ہیں اور دیکھ بھال بھی۔ منی پاور پراجیکٹس کی پیدواری صلاحیت مائیکرو کے مقابلے میں ذیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ ایک آپریٹر کی تنخواہ آسانی سے بچا سکتے ہیں اور نفع بخش بھی ہوسکتے ہیں۔ کے پی حکومت یہی دونوں طریقے استعمال کر رہی ہے۔ اگر پراجیکٹ پر ستر ہزار کی بجائے پچاس ہزار گھر چل رہے ہوں ،ایک گھر 200 یونٹ استعمال کررہا ہوتو چار روپے یونٹ کے حساب ماہانہ 4 ملین روپے کلیکشن ہوسکتی ہے جو پراجیکٹ کو چلانے کے لئے کافی ہے۔

جس طرح پہلے بتایا کہ مائیکرو /منی پراجیکٹ لوکل کمیونٹی کے لئے ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے قانون کے مطابق اگر بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے تو مقامی لوگ اس سے براہ راست مفید نہیں ہوسکتے کیونکہ ڈسٹربیوشن واپڈا کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ مزید وضاحت یہ بھی کردیتا ہوں کہ صوبائی بجلی کے محکموں کے پاس صرف بجلی بنانے کا اختیار ہوتا ہے وہ تقسیم نہیں کرسکتے۔ اس لئیے صوبائی حکومت کے پاس صرف منی/مائیکرو پراجیکٹ رہ جاتے ہیں جس سے براہ راست مقامی لوگ مفید ہوسکتے ہیں۔ اس لئے یہ پراجیکٹ صرف کے پی کے لوگوں کے لئے ہے۔ نیشنل گرڈ کی کارستانیاں مضمون میں آگے چل کر بیان کروں گا۔

مضمون میں مزید اعتراض کیا گیا کہ چھوٹے بجلی گھروں کی ٹربائن مسلسل پانی کا بہاؤ برداشت نہیں کرسکتے اور سیلاب میں بہنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے اور کشمیر میں کچھ پلانٹس سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ ناقص پلاننگ ،فزیبلٹی اور بعض دفعہ غیرمتوقع بڑی آفت آسکتی ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے پانی کا بہاؤ کنٹرول کرنے کا پورا ایک نظام ہوتا ہے، جیسے اگر پانی ذیادہ تیزی سے آرہا ہو تو ہیڈ کی اونچائی کم کردی جاتی ہے تاکہ بہاؤ کو رفتارکم کیا جاسکے ، اگر ٹربائن کی استعداد سے ذیادہ پانی ہو تو وہ سپل وے سے ضائع کردیا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ پلانٹ دریا کے درمیان میں لگا ہوتا ہے کہ پانی اس کو بہا کے لے جائے بلکہ وہ دریا کے کنارے ہوتا ہے جس کو Run of river کہا جاتاہے۔ اس کے علاوہ جب فزیبلٹی بنائی جاتی ہے تو اس میں ماضی کے سیلابوں کا ریکارڈ ہوتا اور مقامی لوگوں سے بھی سیلاب کی ہسٹری اکٹھی کی جاتی ہے۔ کے پی میں تین سال سے کچھ پلانٹ چل رہے ہیں ایسا کوئی ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔

صاحب مضمون نے اعتراض کیا کہ پختونخواہ حکومت بڑے ہائیڈرو منصوبے کیوں نہیں بنا رہی تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ دو بڑے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں ۔ 17 میگاواٹ ایک منصوبہ رنولیا کوہستان 2016 میں مکمل ہوا اور دوسرا منصوبہ 36میگاواٹ درلخور، بحرین سوات 2017 کے اواخر میں مکمل ہو چکا ہے۔ ان کو نیشنل گرڈ میں شامل کرنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ وہ صرف اس وجہ سے نیشنل گرڈ میں شامل نہیں کررہے کہ اس کا کریڈٹ کے پی حکومت کو نہ مل جائے۔ اس بجلی کے قیمت 2 روپے فی یونٹ ہے لیکن قطر کی ایل پی جی 13،14 روپے میں خریدی جارہی ہے۔ وجہ آپ خود جان سکتے ہیں۔

کچھ منصوبے ابھی زیرتکمیل بھی ہیں۔ صرف سوات اور دیر کے تین منصوبوں کی مجموعی پیدوار 161 میگاواٹ ہو گی۔ اس لئے یہ کہنا کہ پختونخواہ حکومت بڑے منصوبوں پر کام نہیں کررہی لاعلمی ہوسکتی ہے یا پھر تعصب۔

چلتے چلتے کچھ ن لیگی حکومت کے نندی پور والے پراجیکٹ کا احوال یاد کرادوں جس میں شہباز شریف اور خواجہ آصف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچھتے رہے۔ منصوبے کی ناکامی پر خواجہ آصف کو معافی مانگنی پڑی اور آخرکار کچھ فرشتوں نے نندی پور کا ریکارڈ ہی جلا ڈالا۔ ساہیوال کا کوئلے کا پراجیکٹ زرخیز زمینوں کے بیچوں بیچ بنایا جارہا ہے، اس کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہونے والے ہیں اور پھر کوئلے کی مسلسل ترسیل کے لئے ریلوے کی استعداد پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ لیکن پھرتی دکھانے کے لئے اور پراجیکٹ پر پنجاب کا ٹھپہ لگانے کے لئے اجلت میں یہ پراجیکٹ شروع کیا گیا۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کے پی کا یہ پراجیکٹ دور افتادہ اور پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کے لئے ہے۔ اس کو اپنی سیاست کی نظر نہ کریں ۔ کے پی حکومت کے لئے مشورہ ہے کہ اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھیں اور اپنے پراجیکٹس پر ابہام نہ رہنے دیں۔ شہباز شریف صاحب سے ہی کچھ فن سیکھ لیں۔

نوٹ: یہ مضمون لکھنے کے لئے کچھ دوست شاہ تاج آفرید کاکا خیل، عمران حلیم اور خاص طور پر صاحبزادہ سعید جان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان لوگوں نے معلومات تک رسائی میں مدد کی ۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں