سمندر کے کنارے ولی اور حنا اپنے مستقبل کے لئے مذاکرات کر رہے تھے۔ یہ مذاکرات کافی دنوں سے جاری تھے۔
آج مذاکرات کا فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ آج جو فیصلہ ہونا تھا وہ ان کے آنے والوں دنوں کی بنیاد تھا۔ اسی فیصلہ پر منحصر تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے ایک ہوجائیں گے یا اجنبی۔
دور آسمان پہ آہستہ آہستہ ڈھلتا سورج ان دونوں کے مذاکرات پر اپنی آنکھ کا کیمرہ لگائے کھڑا تھا۔ جیسے دو ممالک کے مابین مذاکرات میں میڈیا کے کیمرے عکس بندی میں مشغول ہوتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد پانی کے سمندر کے سامنے بیٹھی حنا نے خاموشی کے سمندر میں پہلا پتھر پھینکا۔
کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔؟
ولی کے پاس حنا کی بات کا جواب تھا مگر وہ پریشان تھا کہ اس بات کا جواب کیا دے جو حنا کو پہلے سے معلوم ہو مگر پھر بھی معلوم کرنے پر مصر ہے۔
اس نے کافی دیر سوچ کر کہا۔
آخر تمھیں کیوں لگتا ہےکہ میں تم سے محبت نہیں کرتا؟ کیا محبت صرف پا لینے اور مل جانے کا نام ہے؟
حنا نے بات کاٹ دی۔ تو پھر کیوں خود کو مجھ سے اور مجھے خود سے دور کر رہے ہو؟ کیوں شادی سے انکار کررہے ہو؟ مجھے رد کرکے تم کون سی محبت جتا رہے ہو؟ اس صاف انکار کے بعد بھی کیا تمھیں لگتا ہے کہ میں تمھاری محبت پر یقین کروں گی؟
ولی اپنی صفائی میں دلائل دے دے کر تھک چکا تھا شاید مزید بحث لا حاصل لگ رہی تھی اس لئے بات مختصر کرنے کے لئے بولا۔
تم مجھے بے وفا، ہرجائی اور جو چاہو کہہ سکتی ہو۔ مگر میں خود غرضی میں اتنا آگے نہیں بڑھ سکتا۔
حنا نے پھر سوال داغ دیا۔ کیسی خود غرضی؟ ہماری شادی میں کیا صرف تمھاری غرض ہے کیا میری غرض اس میں شامل نہیں ہے؟
ولی کا جواب اس کی نیت کی مانند صاف ضرور تھا مگر جذبات، احساسات، اور حوصلہ کی آمیزش نے اسے قدرے دھندلا دیا تھا۔ جیسے اس شام کے منظر میں دن کی روشنی اور آنے والی رات کے اندھیرے کی آمیزش شامل ہوکر اسے دھندلا بنا دیتے ہیں۔
میں تمھیں خود سے الگ نہیں سمجھتا اس لئے تمھاری غرض کو الگ غرض نہیں کہتا۔
میں تمھیں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور سمجھا بھی چکا ہوں کہ میں خود کو ذہنی طور پر تیار کرچکا ہوں ہر اس ذہنی اذیت کے لئے جو مجھے تمھیں چھوڑ کر سہنی پڑے گی۔ مگر میں کیا کروں کہ میں تمھاری ماں کو اپنی خواہش پر قربان نہیں کرسکتا۔ وہ بیمار ہیں۔ کیسی بیٹی ہو تم کہ تمھیں اپنی ماں کی بیماری کا کوئی خیال نہیں۔ کیا یہ بات تم نے ہی مجھے نہیں بتائی کہ ہمارا رشتہ ان کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ذہنی اور دلی تکلیف کا باعث ہے اور ڈاکٹر نے انہیں مزید کوئی صدمہ لینے سے منع کیا ہے۔ کیا میں ان سے ان کے جینے کا حق چھین کر اپنے جینے کی راہ ہموار کرلوں؟
نہیں حنا مجھ سے یہ نہیں ہوگا۔
حنا کا لہجہ کچھ سرد پڑگیا۔ تم ہمیشہ مجھ پر یہ الزام کیوں دیتے ہو کہ مجھے میری ماں کا خیال نہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ واقعی میری شادی اپنے خاندان میں کرنا چاہتی ہیں۔ اور میری شادی تم سے ہونا ان کے لئے کسی صدمہ سے کم نہیں ہوگا۔ وہی صدمہ کہ جس کے لئے ڈاکٹر نے پہلے سے احتیاط بتائی ہے۔
مگر ہر ماں باپ شروع میں ایسے ہی کہتے ہیں ایک بار شادی ہوجائے تو پھر راضی ہوجاتے ہیں۔ میرا یقین کرو کہ میں انہیں منا لوں گی۔ وہ ماں ہیں مان جائیں گی۔
ولی نے انتہائی حیرت زدہ لہجے میں حنا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
اگر وہ صدمہ کے باعث حیات نہ رہیں تو کیا پھر بھی ؟
حنا کے جواب میں سامنے بچھے سمندر سے زیادہ گہری خاموشی تھی۔ مگر آنکھ میں آئی نمی بتا رہی تھی کہ ولی نے الفاظ کی بساط پر مات دے دی ہے۔ اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا سوائے اپنے گھر کا۔
ولی نے سلسلہ کلام پھر جوڑا۔ شاید دل کی مات، الفاط کی مات کے بعد اب حوصلوں کو بھی مات دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
حنا۔ تمھاری ماں ایک ماں ہے۔ اور تم نے کل ایک ماں بننا ہے۔ میں آنے والی ایک ماں پر گذشتہ کل کی ماں قربان نہیں کرسکتا۔ یاد رکھنا ۔ مستقبل کی عمارت ہمیشہ ماضی کی زمین پر تعمیر ہوتی ہے۔ کسی عمارت کے نیجے سے اگر زمین کھینچ لئ جائے تو عمارت باقی نہیں رہتی۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ اور یہی محبت ہے کہ انسان اپنے محبوب کا فائدہ سوچے نہ کہ نقصان۔ میں تمھاری مستقبل کی عمارت سے اس کی زمین نہیں چھین سکتا۔ میں ایک ماں سے اس کی ماں نہیں چھین سکتا۔
دور سورج نے بھی مذاکرات ختم ہونے کے بعد اپنی کیمرے کے آنکھ کو بند کرنا شروع کردیا تھا۔ ایک ماضی کی ماں کی کہانی وہ عکس بند کرچکا تھا۔ اب کل اس نے ایک نئی ماں کی کہانی بھی عکس بند کرنا تھی۔