ہمیں فی الوقت جس المیے کا سامنا ہے وہ معاشرتی رگوں میں پروان چڑھتا عدم برداشت اور مفقود ہوتے رواداری کے رویے ہیں۔ سوشل میڈیا کہنے کو تو لوگوں کو باہم جوڑنے کا آلہ گردانہ جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں جو واقعات اور حادثات رونما ہوئے ہیں، اُن میں واقعات اور حادثات سے زیادہ تکلیف دہ عنصر لوگوں کا اُن واقعات پر ردِعمل رہا ہے۔ سوشل میڈیا بلاگرز اور مذہبی شدت پسندوں کی گمشدگی کا واقعہ ہو یا ریاست کے خلاف آواز اٹھانے والے دیگر افراد کی گمشدگی کی واردات ہو، ہر طبقہ دوسرے طبقے کی تکلیف کے مزے لیتا نظر آتا ہے۔
اسی طرح اگر غیرت کے نام پر یا حوس کے بے لگام گھوڑے کے ہاتھوں کسی عورت کو درندگی کا شکار کیا جاتا ہے تو وہاں بھی لوگ تقسیم نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو اس مکروہ اور درندہ صفت فعل کا جواز بہم پہنچاتے نظر آتے ہیں اور ایک عظیم اکثریت ایسی ہے جو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنا مصنوعی خول تو نہیں اتارتی لیکن خاموش رہ کر وہ بھی اندرونِ خانہ پہلے گروہ سے اثر لیتی اور ہمدردی دکھاتی نظر آتی ہے۔
اسی طرح اگر ریاست کے کردار پر ہوتی بحث کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی ایسا ہی اعتدال سے ہٹا ہوا رویا نظر آتا ہے۔ کوئی جمہوریت کی سپورٹ میں قومی سلامتی کے اداروں پر اپنے کسی ردِعمل کے تابع اعتدال سے ہٹ کر تنقید کرتا نظر آتا ہے تو کوئی سیاستدانوں کی بددیانتی اور بےایمانی سے تنگ آ کر غیر جمہوری قوتوں کے حق میں زمین آسمان کے کلابے ملاتا نظر آتا ہے۔ تنقید کرنے والا کہیں بھی محسوس نہیں کرتا کہ اُس کی تنقید کا انداز مثبت کی بجائے منفی اثرات زیادہ پیدا کر رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جب سوشل میڈیا بلاگرز کی گمشدگی کا واقعہ پیش آیا تو تب بھی میرا مؤقف یہی تھا کہ ہمیں باہمی تعصبات اور نفرت میں اعتدال سے نہیں بھٹکنا چاہیئے۔ آج جو افتاد دوسرے پر آئی ہے وہ کل آپ پر بھی آ سکتی ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا سیکھیں۔ اختلاف کو تفریق کا باعث نہ بننے دیں۔ لیکن مجال ہے جو کوئی اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار ہو۔ ہر شخص دوسرے کا نام و نشان مٹا کر اپنی رائے مسلط کرنے کو حرضِ جاں بنائے ہوئے نظر آتا ہے۔ نفرتوں کی خلیج پاٹنے کی بجائے ہم اپنے عدم برداشت کے رویوں کے سبب اس خلیج کو اور بھی زیادہ بڑھاوا دیے جا رہے ہیں۔
ایک عرصہ تک اس ملک کا لبرل اور سیکولر طبقہ قدامت پسند مذہبی بیانیے کا ٹارگٹ بنا رہا۔ مذہب کے نام پر کیا کیا ظلم و جور کے پہاڑ تھے جو اُن پر نہیں ڈھائے گئے۔ مقتدر قوتوں نے اسی مذہبی بیانیے کو استعمال کر کے ہر اٹھنے والی مخالف سیاسی آواز کو دبانے کے لیے مذہب دشمنی کا رنگ دیا اور اپنا فائده وصول کیا۔ نتیجتاً لبرل اور سیکولر طبقے میں مذہب اور مقتدر قوتوں کے خلاف ردِعمل کا پیدا ہونا عین فطری تھا۔ لیکن ردعمل میں ہمیشہ یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ انسان جذبات سے مغلوب ہو کر اعتدال سے ہٹ سکتا ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں بھی یہی آیا ہے کہ کسی ظلم کا شکار فرد ردِعمل میں عملی نہیں تو زبان کی حد تک ضرور اپنی کڑواہٹ کا زہر حدِ اعتدال سے ہٹ کر اگلتا ہوا نظر آتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شدت پر مبنی ردِعمل عوام میں اثر پزیر ہونے کی بجائے مزید ردِعمل کو جنم دیتا ہے۔
یہ بات ہمارے لبرل اور سیکولر عناصر کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے ردِعمل میں مذہب اور ریاستی اداروں (جن کو عوام میں پزیرائی حاصل ہے) پر اپنی تنقید کو اگر اعتدال کی لگام نہیں ڈالیں گے تو اپنے کیتھارسس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ نتیجے میں تقطیب (Polarization) بڑھے گی اور اس تقسیم کا نقصان عوام کو بھی ہو گا اور ملک کو بھی۔ مشورہ اُسی کو دیا جاتا ہے جس میں سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہو۔
حدیثِ نبویؐ ہے کہ نفرت کی زیادتی انسان کو اندھا بنا دیتی ہے۔ جب ہم نفرت کے تابع کسی ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں تو نہ ختم ہونے والے شیطانی چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ بنیادی نقاط پر شروع ہونے والا اختلاف جزیات کے شیطانی چکر میں ایسا پھنستا ہے کہ اصل بنیادی نقطہ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور غیرضروری موضوعات منظر نامہ بن جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال کچھ ہی دن پہلے مردان یونیورسٹی میں وقوع پزیر ہونے والا ایک اندوہناک اور دردناک واقع ہے جس میں ایک بچے کو انتہائی بےدردی اور سفاکی سے قتل کیا گیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک قومی المیہ تھا لیکن دونوں اطراف کے غیرمعتدل اور عاقبت نااندیش رویے نے اسے لبرلزم اور مذہب کی جنگ بنا دیا۔ یہ ایک ایسا قومی المیہ تھا جس پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیئے تھا لیکن آپس کی دشنام ترازیوں اور تحقیر پر مبنی رویوں نے اسے محض دو گروہوں کا باہمی قضیہ بنا دیا۔ جس پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیئے تھا اب ایک گروہ اس کے حق میں ہے اور دوسرا گروہ اس کے خلاف۔
اگر ہم نے اپنے ان بےحس اور عاقبت نااندیش رویوں کو نہ بدلا تو ایسے المیے روز جنم لیتے رہیں گے اور ہمیشہ کی طرح ایسے ہی غیر معتدل رویوں کی وجہ سے اصل موضوع پس منظر میں چلا جائے گا اور فروعی معاملات ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھیں گے۔ معاشرے ایسے ہی عاقبت نااندیش رویوں سے تباہ ہوتے ہیں۔ اثر پزیری پیدا کرنی ہے تو معتدل رویے اختیار کرنا ہوں گے۔