307

ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ہیں

اسلام علیکم ڈاکٹر صاحبہ

ڈاکٹر :  وعلیکم السلام

ڈاکٹر صاحبہ، آج میری وائف آپکے پاس چیک اپ کے لیے آئی تھی، اس سلسلے میں بات کرنا ہے۔

ڈاکٹر : جی ماشاءاللہ مبارک ہو آپکو 5 ماہ خیریت سے گزر گئے ہیں آپ بیٹی کے باپ بننے والے ہیں

وہ ڈاکٹر صاحبہ ایک ریکویسٹ تھی ہم نے ابارشن کروانا ہے

ڈاکٹر : کیوں خیر ، کوئی مسئلہ ہو گیا ہے کیا؟  آپ وائف کو کلینک لے آئیں

نہیں میڈم مسئلہ کوئی نہیں ہوا وہ بیٹی ہے نا تو ابارشن کروانا ہے آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں

ڈاکٹر : آپ پاگل ہیں کیا سب کچھ ٹھیک ہے اور آپ مجھے ایک غیر اسلامی اور غیر قانونی کام کا کہ رہے ہیں

ڈاکٹر صاحبہ آپ غصہ نہ کریں میری بات سمجھیں، بیٹی ہے نا تو آپکو مسائل کا پتہ ہی ہو گا

ڈاکٹر : بولیں کیا مسائل ہیں آپ اسکو تعلیم نہیں دے سکتے، جہیز نہیں دے سکتے، اسکی پرورش نہیں کر سکتے کیا مسئلہ ہے آخر

نہیں ڈاکٹر صاحبہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں اللہ کا کرم ہے رزق کی فراوانی ہے

ڈاکٹر : پھر کیوں فضول بحث کر رہے ہو

ڈاکٹر صاحبہ آپکے پاس معاشی مسائل کی وجہ سے فون آتے ہوں گے میرا مسئلہ اور ہے

میری بیٹی کا ریپ ہو جائے گا ڈاکٹر صاحبہ میں اسکی حفاظت نہیں کر پاؤں گا

وہ چھوٹی سی ننھی منی تو یہ سب نہیں جانتی نا جو میرے ملک میں ہو رہا ہے 5 سے 12 سال کی بچیاں محفوظ نہیں ڈاکٹر صاحبہ

وہ تو صحیح طریقے سے بولنا چلنا بھی شروع نہیں کرتیں تو درندے انہیں بھمبوڑ دیتے ہیں آپ بتائیں میں اپنی پانچ سال کی بیٹی کو کیسے سنبھالوں

اسکو گھر میں بند کر کے رکھوں، کسی سے ملنے نہ دوں، تعلیم سے دور رکھوں بتائیں کیا کروں

عزیزوں رشتے داروں سے بچاوؐں، محلے پڑوس سے یا ملنے جلنے والوں سے

سکول کے چوکیدار پین سے یا اسکے کزنوں سے

ہم بیٹی کو عزت دو، بیٹی کو جینے دو، بیٹی بوجھ نہیں ہوتی جیسے نعرے تو مار لیتے ہیں لیکن اس بیٹی کے لیے معاشرے میں موجود خطرات پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں

جب ہم بیٹی کو تحفظ اور جینے دینے کے دعوے کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ہمارے ذہنوں میں ڈر ہوتا ہے بیٹی یا عورت ایک کمزور جنس ہے اسکا خیال ہوتا ہے

ہم  بیٹوں کو کیوں نہیں  کہتے انسان بنو ؟

ہم کیوں نہیں ان درندوں کو چوک میں آگ لگاتے جن کی وجہ سے بیٹاں فخر نہیں بوجھ محسوس ہوتی ہیں

کیا ہم نے آج تک لڑکوں کو سدھارنے اور انکی اخلاقی تربیت کے لئے آواز اٹھائی ہے؟

ہمارے معاشرے کی سوچ تو یہ ہے کہ لڑکا سو گناہ بھی کر لے تو پاک صاف رہتا ہے، بیٹی کسی سے بات کر لے تو عزت داوؐ پر لگ جاتی ہے کوئی بیٹی کو ہنس کر دیکھ لے کوئی جملہ کس دے تو عزت چلی جاتی ہے۔

ہماری بیٹاں ہمارا فخر تب ہوں گی جب ہم معاشرے کی سوچ بدلیں گے جب ہم خود بدلیں گے

جب لڑکے کا گناہ بھی ہمیں ایسے ہی شرمندہ کروائے گا ہماری غیرت ایسے ہی جگائے گا جیسے لڑکی کا

آج تک غیرت کے نام پر کس باپ نے اپنے بیٹے کو مارا ہے؟ 

غیرت کے نام پر جب بھی مری لڑکی ہی مری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں