قرآنِ کریم نے قربانی کے لیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے:
(وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ) (الحج 22:28)”
اور وہ معلوم ایام میں بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔”
خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)،چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ) کہا۔(الأنعام 6:144-142) جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا،علاقائی ناموں کا نہیںانہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔ مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔ اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے، لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے، لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں جو دوسرے علاقوں والوں کے لیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔
اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔قربانی کے جانوروں میں سے ایک ”بقر” (گائے) بھی ہے۔اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کی زبانی ان کی قوم کو ”بقر” ذبح کرنے کا حکم دیا،لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہئ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین،علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبریa(310-224ھ) صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .
”قومِ موسیٰ، گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا،اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا،کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔
ان کے لیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے ،جس پر ‘بقر’ کا لفظ بولا جاتا تھا۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی،اِبِل(اونٹ)کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔اس سلسلے میں ہم ہر دور کے چیدہ چیدہ علمائے لغت ِعرب کے اقوال پیش کرتے ہیں:1 لیث بن ابوسلیم تابعی(اختلط في آخر عمرہٖ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے:اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .”بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوںمیں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)2 لغت و ادب ِعربی کے امام،ابومنصور،محمدبن احمد،ازہری،ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں :وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .”گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔”(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)3 امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل،المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .”بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔”(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی ،ابوالفتح،ناصربن عبد السید،معتزلی،مطرزی (610-538ھ)لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .”بھینس،گائے ہی کی نسل سے ہے۔”(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)5 مشہور فقیہ ومحدث ،علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد،المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی a(620-541ھ)فرماتے ہیں :وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ .”بھینسیں،گائے کی نوع(نسل)سے ہیںاور بختی،اونٹوں کی نوع(نسل)سے۔”
(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)6 شیخ الاسلام ابن تیمیہaکے جد امجد،محدث و مفسر،ابوالبرکات،عبد السلام بن عبد اللہ،حرانیa(652-590ھ)فرماتے ہیں:وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .”بھینسیں،گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔”(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)7 شارحِ صحیح مسلم،معروف لغوی،حافظ ابوزکریا،یحییٰ بن شرف،نوویa (676-631ھ)،ابواسحاق شیرازی(474-393ھ)کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں :وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .”مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس،گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ”(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ،ابوالفضل،محمدبن مکرم، انصاری،المعروف بہ ابن منظور افریقی(711-630ھ)فرماتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .”بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔”(لسان العرب : 43/6)9 معروف لغوی،علامہ ابوالعباس،احمدبن محمدبن علی،حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .”بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔”
(المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)0 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ”تاج العروس” میں مرقوم ہے
:اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .”بھینس ،گائے کی نسل سے ہے۔”
(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)! لغت ِعرب کی معروف کتاب ”المعجم الوسیط” میں ہے :اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ .”بھینس،گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے۔”(المعجم الوسیط : 134/1)نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :
اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ .”بَقَر،گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل(گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔”(المعجم الوسیط : 65/1)اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض انتہائی قابل احترام اہل علم کا یہ کہنا کہ ‘بھینس کاگائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں،بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کے لیے
لفظکَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)مستعمل تھا۔اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر(گائے کی نسل) لکھ دیا۔۔۔’قطعاًدرست نہیں،کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو؟بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور ہمارے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا۔
اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے۔کیا اہل لغت کا کوئی اعتبار ہے؟بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کیا شریعت میں لغت ِعرب دلیل بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت ِرسول کا سارا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔قرآن و سنت پر عمل تب ہی ہو گا،جب اس کا معنیٰ و مفہوم سمجھا جائے گا اور قرآن و سنت کا معنیٰ و مفہوم تب ہی سمجھا جا سکتا ہے،جب لغت ِعرب کو سمجھا جائے گا۔کوئی شخص اگر قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا ترجمہ کرتا ہے تو وہ لغت ِعرب کو پڑھ اور سمجھ کر ہی اپنی کاوش میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے ترجمے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے لغت ِعرب ہی راہنمائی کرے گی۔جو لوگ لغت ِعرب کا اعتبار نہیں کرتے،ان سے سوال ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ”بقر” کا معنیٰ ”گائے”کیوں ہے؟بھینس کا نام ہی گائے ہےبعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔
اگر بھینس ،گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا،نہ کہ کچھ اور۔جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ بھینس کے لیے عربی میں لفظ ِ”جاموس”استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔فارسی میں یہ نام ”گاؤمیش”تھا۔عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ”جاموس” ہو گیا۔اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ”جاموس” کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ”گاؤ”(گائے) موجود ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔چونکہ گائے کی یہ نسل(بھینس)عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی،بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی،عربوں کے ہاں معروف نہ تھی،اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔
اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم ومفتی،شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں)تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا(اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟تو انہوں نے فرمایا :اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .”بھینس،گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے،جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دےتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا،نہ کہ نسلیں)۔”(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)تنبیہ :بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے بھینس کی قربانی نہیں کی،لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے۔
ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ”بھینس”ہی کے بارے میں کیوں ہے؟ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کیں،صرف انہی کی اجازت دیں۔کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کی تھیں؟ اس طرح تو دیسی، ولائتی، فارسی، افریقی، تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا۔پھر ہر شخص قربانی کے لیے عربی گائے،عربی اونٹ،عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا؟ اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہٖ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!
پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس، گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیںاور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں۔الحاصل :بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔