سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے، عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف ،وزیراعظم ،وزارت دفاع اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے، عدالت نے قراردیا ہے کہ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کرسکتے ہیں ، کابینہ میں 25وزراءتھے ،آرمی چیف کی توسیع کی سمری صرف11 ارکان نے منظور کی اور استفسار کیا کہ کیا نوٹیفیکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہئیے تھا. چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر نے دینا ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد کیا صدر نے دوبارہ منظوری دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی۔ عدالت نے کہا کہ صدر نے کابینہ سے پہلے جو مننطوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آج ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک متفرق درخواست موصول ہوئی ،جس میں درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی ،درخواست گزار اورایڈووکیٹ آن ریکارڈ پر موجود ہے، اس کے ساتھ کوئی بیان حلفی جمع نہیں کرایا گیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کرسکتے ہیں ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ایسالگتا ہے نئی تقرری ہے توسیع نہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسی کیا ہنگامی حالت ہے کہ توسیع دی جا رہی ہے ؟ایسی کوئی وجہ توسیع دیتے ہوئے نہیں بتائی گئی،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائرہو رہے ہیں ؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف 29 نومبر کوریٹائرہو رہے ہیں .
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ 19 اگست کو نوٹیفکیشن ہواتو وزیراعظم نے 21 اگست کو کیا منظوری دی ؟چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا صدر کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دستخط کیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد کیا صدر نے دوبارہ منظوری دی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر نے دینا ہوتی ہے۔ صدر نے کابینہ سے پہلے جو منظوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 21 اگست کو کابینہ کے سامنے آپ نے صدر صاحب کو رکھ دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم صدر مملکت سے دوبارہ منظوری لے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انیس تاریخ کو وزیراعظم کو بتایا جاتا ہے کہ آپکا اختیار نہیں۔ پھر معلوم ہوتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم دونوں کا اختیار نہیں، فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کابینہ میں 25وزراءتھے ،آرمی چیف کی توسیع کی سمری صرف11 ارکان نے منظور کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کابینہ اکثریت نے منظوری دی۔ پچیس میں سے گیارہ وزرا کے ناموں کے سامنے ‘یس’ لکھا گیا. چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں۔ جن ارکان نے جواب نہیں دیا ان کا انتظار کرنا چاہئیے تھا۔ ان ارکان نے ‘ناں’ بھی تو نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو “ہاں” سمجھتی ہے؟ کیا نوٹیفیکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہیے تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرری کا اختیار نہیں، توسیع کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرری کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیاصدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے توسیع کی منظوری دی ؟کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی ؟ اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں ؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے ؟،ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جاسکتا ہے ۔
سپریم کورٹ نے ریاض حنیف راہی کی درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کردی ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہے، درخواست گزار اورایڈووکیٹ آن ریکارڈ پر موجود ہے ،درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں ۔سپریم کورٹ نے آرمی چیف کےخلاف درخواست کوازخودنوٹس میں تبدیل کردیا،سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کردیا،عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف ،وزیراعظم ،وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیئے اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ حکومت نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں3سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔