ایک ترک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک حکام نے سعودی صحافی جمال خشوگی پر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں تشدد اور پھر ان کے قتل سے متعلق بعض آڈیو ریکارڈنگ حاصل کرلی ہیں۔
ترک روزنامے ‘صباح’ کی جانب سے یہ دعویٰ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سعودی عرب کے ماہرین کی ایک ٹیم ترکی پہنچی ہے جو ترک حکام کے ساتھ مل کر جمال خشوگی کی گمشدگی کی تحقیقات کرے گی۔
‘صباح’ نے ہفتے کو اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ جمال خشوگی نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے وقت ‘ایپل’ کی دستی گھڑی پہنچی ہوئی تھی جو ان کے اس فون سے منسلک تھی جو قونصل خانے کے باہر موجود ان کی منگیتر کے پاس تھا۔
اخبار کے مطابق خشوگی نے قونصل خانے میں داخل ہوتے وقت اپنی گھڑی پر وائس ریکارڈنگ کا فیچر آن کردیا تھا جس کے باعث ان کی گھڑی اور اس سے منسلک فون نے قونصل خانے میں ان کے ساتھ کی جانے والی تفتیش، مار پیٹ اور آخر کار قتل تک کے تمام واقعات کی آوازیں محفوظ کرلی تھیں۔
‘صباح’ کی اس رپورٹ سے قبل دو ترک اہلکاروں نے برطانوی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ سے گفتگو میں بھی تصدیق کی تھی کہ قونصل خانے میں داخل ہوتے وقت خشوگی نے ‘ایپل’ کی گھڑی پہن رکھی تھی جو اس فون سے منسلک تھی جو خشوگی قونصل خانے کے باہر موجود اپنی منگیتر کے پاس چھوڑ گئے تھے۔
ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں تھا کہ آیا اس دستی گھڑی سے کوئی ڈیٹا باہر فون یا کسی کلاؤڈ میموری میں منتقل ہوا تھا یا نہیں اور اگر ہوا تھا تو تفتیش کار کس طرح اس تک رسائی حاصل کریں گے۔
لیکن ہفتے کو ‘صباح’ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسے مصدقہ ذرائع سے علم ہوا ہے کہ خشوگی نے قونصل خانے میں داخل ہوتے وقت اپنی گھڑی پر وائس ریکارڈنگ آن کرلی تھی جس نے بعد میں پیش آنے والے تمام واقعات کی آوازیں محفوظ کرلیں۔
اخبار کے مطابق سعودی انٹیلی جنس اہلکاروں کو خشوگی کے قتل کے بعد پتا چلا کہ ان کی گھڑی ریکارڈنگ پر لگی ہے جس کے بعد انہوں نے خشوگی کا فنگر پرنٹ لے کر گھڑی کو ان لاک کیا اور اس میں سے بعض فائلیں ڈیلیٹ کردیں۔
لیکن اخبار کے مطابق بعض فائلیں پھر بھی محفوظ رہ گئی تھیں جنہیں بعد ازاں ترک حکام نے ان کے فون سے حاصل کرلیا۔
اس سے قبل جمعرات کو ترکی نے اعلان کیا تھا کہ اس نے معاملے کی مشترکہ تحقیقات کی سعودی تجویز قبول کرلی ہے جس کے بعد سعودی ماہرین کی ایک ٹیم ہفتے کو استنبول پہنچی ہے۔
ترک حکام نے مشترکہ تحقیقات کی تجویز قبول کرنے کا اعلان ایک اعلیٰ سطحی سعودی وفد کے ترکی کے دورے کے بعد کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سعودی شہزادے خالد الفیصل کی سربراہی میں آنے والے وفد نے خشوگی کی گمشدگی کی تحقیقات کرنے والے ترک اہلکاروں کے علاوہ وزارتِ انصاف، وزارتِ داخلہ، پولیس اور نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔
لیکن دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اس سعودی وفد کے دورۂ ترکی کے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس دورے کی تصدیق کی ہے۔
جمال خشوگی ایک معروف سعودی صحافی تھے جو ایک سال قبل اپنے خلاف سعودی حکومت کی انتقامی کارروائی کے خوف سے امریکہ منتقل ہوگئے تھے۔
خشوگی سعودی حکومت کے کڑے ناقد تھے اور اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد سے مسلسل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کر رہے تھے۔
خشوگی اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنے والے تھے جس سے قبل وہ گزشتہ منگل کو اپنی سعودی بیوی سے علیحدگی کی تصدیقی دستاویزات لینے استنبول کے سعودی قونصل خانے گئے تھے لیکن اس کے بعد سے باہر نہیں آئے۔
ان کی منگیتر قونصل خانے کے باہر ان کی منتظر تھیں جنہوں نے بعد ازاں ترک حکام کو خشوگی کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔
بعض ترک اہلکاروں نے خشوگی کی گمشدگی کے اگلے ہی روز ‘رائٹرز’ کو بتایا تھا کہ ترک حکام کو شبہ ہے کہ خشوگی کو قونصل خانے کے اندر قتل کردیا گیا ہے۔
لیکن سعودی حکام اس الزام کو مسترد کرچکے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ خشوگی قونصل خانے آنے کے کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی خشوگی کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
جمعے کو امریکی ریاست اوہایو کے شہر سنسناٹی میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر خود سعودی فرمانروا شاہ سلمان کو ٹیلی فون کریں گے۔