308

زرداری، اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، بحریہ ٹاؤن اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس اور ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

پیر کو چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر کمرۂ عدالت میں پروجیکٹر لگا کر جے آئی ٹی رپورٹ کی سمری چلائی گئی جس میں آصف زرداری، بحریہ ٹاؤن اور اومنی گروپ پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا ہے۔

جے آئی ٹی کے رکن ڈاکٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ تینوں گروپس نے مل کر 23 اکاؤنٹس سے 42 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔ ان کے بقول صوبۂ سندھ میں 19 ٹھیکے داروں کا ایک گروپ ہے جو اِن کے لیے منی لانڈرنگ کرتا ہے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ ٹنڈو الہیار، کراچی اور لاہور میں بلاول ہاؤس کے لیے رقم جعلی اکاؤنٹس سے ادا کی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ بلاول ہاؤس لاہور کی اراضی زرداری گروپ کی ملکیت ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ لاہور کی اراضی گفٹ کی گئی تو پیسے کیوں ادا کیے گئے؟ کیا گفٹ قبول نہیں کیا گیا تھا؟

سربراہ جے آئی ٹی نے عدالت کو مزید بتایا کہ مشتاق اور ڈنشا نامی افراد آصف زرداری کے فرنٹ مین ہیں جب کہ ملک ریاض نے اپنے داماد زبیر کے ذریعے منی لانڈرنگ کی۔

ان کے مطابق اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن نے کِک بیکس دے کر زمینیں الاٹ کرائیں۔

احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ زرداری گروپ نے 4ء53 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے۔

دورانِ کیس چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماڈل ایان علی کہاں ہیں؟ کیا وہ بیمار ہو کر پاکستان سے باہر گئیں؟ کوئی بیمار ہو کر ملک سے باہر چلا گیا تو واپس لانے کا طریقہ کیا ہے؟

جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلاول اور دیگر اہلِ خانہ کا ایک کروڑ بیس لاکھ سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کا ماہانہ خرچہ جعلی اکاؤنٹ والی کمپنیوں سے ادا کیا جاتا تھا جب کہ کراچی اور لاہور کے بلاول ہاؤسز کی تعمیر کے لیے بھی جعلی اکاؤنٹس سے رقوم منتقل ہوئیں۔

دوران سماعت ایف آئی اے نے عدالت سے استدعا کی کہ تمام افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے جائیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وزارتِ داخلہ کو درخواست دیں، ای سی ایل سے متعلق وہ فیصلہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے جے آئی ٹی رپورٹ فریقین کو دینے کا حکم دیا اور آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو کہا کہ رپورٹ پر آپ جواب جمع کرائیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کے کھانچے ہیں، معاف نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو کیس کے فیصلے کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام جائیدادیں ضبط کی جائیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو پہلے کا تھا۔ جہاں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کی جاتی تھی۔ اگر کوئی پیمپر میں ہے تو اس کے ساتھ ہی جائے گا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ زرداری اور بلاول کے گھر کے خرچے بھی یہ کمپنیاں چلاتی تھیں اور ان کے کتوں کا کھانا اور ہیٹر کے بل بھی کوئی اور دیتا تھا۔

عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 31 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لیے بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تفصیلی رپورٹ رواں ماہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں