اس امر میں کلام نہیں کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ اور سماجی نفسیات ہمیں مجبور کرتی ہے کہ طاقتور طبقے کی تمام تر کوتاہیوں اور انتہائی خطرناک غلطیوں کے باوجود اس طبقے کو مظلوم سمجھا جاتا رہے اور جب بھی اس طبقے کے گریبان تک قانون کا ہاتھ پہنچے، تو سماج کا بڑا حصہ اور بعض انتظامی ادارے قانون کے بجائے طاقتور طبقے کا ساتھ دیں۔
یہ اگرچہ بڑی دلچسپ بحث ہے کہ قانون کو اپنی عمل داری قائم کرنے کے لیے سماج کے ایک بڑے اور متحرک طبقے کی حمایت کیوں درکار ہوتی ہے۔ ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں قانون کمزور اور شخصیات مضبوط ہوں،جہاں اداروں کے بجائے خاندانی جمہوریتوں کی مضبوطی کے لیے کام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جائے۔اگرچہ سیاسی شعور کی پختگی اور دیگر عوامل مل کر عوام کو ایسے طبقات سے نجات کا حوصلہ تو دیتے ہیں ،اس کے لیے جہاں بڑے ویژنری لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے وہیں عوامی سطح پر اس حوصلے کا مثبت استعمال ہی معاشرے میں تبدیلی کا اہم عنصر ہو سکتا ہے۔ ہمارا سماج چند خاندانوں اور ان ہی خاندانوں کے قصیدہ خوانوں کی جمہوریت اور سیاست کے گرد گھومتا ہے یا پھر فوجی آمریت کی تبدیلی اس خاندانی جمہوری آمریت سے نجات دلاتی ہے۔
پاناما لیکس دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور دولت کے پجاریوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔پاکستان کے حکمران خاندان یعنی میاں محمد نواز شریف جو کہ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہیں، ان کے بچوں اور خاندان کا نام بھی اس پاناما سکینڈل میں آیا ہے۔سماجی روایت کے تحت تو اس سکینڈل کو چار چھ ماہ بعد اپنی موت آپ مر جانا چاہیے تھا مگر اس کا کریڈٹ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے اس سکینڈل کو مرنے نہ دیا اور سپریم کورٹ میں لے گئے۔ وہاں طویل مگر جاندار سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ اس کیس کی مزید انکوائری اور تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ اس فیصلے پر نون لیگ کے رہنماوں نے مٹھائیاں بھی بانٹیں،اور کہا کہ یہ حکمران جماعت کے حق مین فیصلہ آیا ہے۔ کیونکہ حکمران جماعت پہلے ہی اپوزیشن کو یہ آفر کر چکی تھی کہ اس معاملے پر ایک کمیشن بنا دیا جائے۔مگر بوجہ اپوزیشن جماعتوں کا حکمران جماعت کے ساتھ اس پہ اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دینے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت کی کہ اس کے اراکین کا انتخاب عدالت عظمیٰ کرے گی۔نیز یہ کہ جے آئی ٹی کو 60 دنوں میں اپنا کام مکمل کرنا ہو گا۔ اس سارے عمل کی نگرانی نہ صرف سپریم کورٹ خود کر رہی ہے بلکہ جے آئی ٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر پندرہ دن کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔گذشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب کے صاحبزادے حسین نواز کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج لیک کی گئی، جس مٰن حسین نواز ایک کرسی پہ سر جھکائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کی بابت اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ حکمران جماعت نے خود لیک کرائی تا کہ جے آئی ٹی کو بد نام کیا جائے اور اسے متنازعہ بنایا جا سکے، جبکہ حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ یہ تصویر دانستہ جے آئی ٹی ممبران نے لیک کرا کے حکمران خاندان کی تضحیک کی ہے۔
یاد رہے کہ حسین نواز جے آئی ٹی کے دو ممبران پر اعتراض اٹھا چکے ہیں جنھیں سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا ہے۔ حکمران جماعت کے سرکردہ اسمبلی ممبران اور سینیٹرز اب کھلے بندوں جے آئی ٹی پر نہ صرف اعتراضات کر رہے ہیں بلکہ مسلم لیگ نون کے سینیٹر نہال ہاشمی تو باقاعدہ ایک دھمکی بھی دے چکے ہیں۔جس پر انھین عدالت عظمیٰ میں طلب بھی کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ایک ایم این اے نے سپریم کورٹ کے باہر یہ بھی کہا کہ یہ جے آئی ٹی ہے یا قصائی کی کوئی دکان، کہ جہاں حسین نواز اور حسن نواز کو گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ہے اور گھنٹوں ان سے تحقیقات کی جاتی ہے۔جبکہ پنجاب سے ایک صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی چاہتی ہے کہ اس پر حملہ کیا جائے۔
آج نیشنل بینک کے صدر نے بھی رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پاناما پییرز کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات میں بننے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے ارکان کے رویے کی شکایت کردی۔ صدر نیشنل بینک سعید احمد کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن کے مطابق جے آئی ٹی ارکان نے انھیں 5 گھنٹے تک انتظار کروایا جبکہ کچھ ارکان کا رویہ دھمکی آمیز اور تحمکانہ ہے۔ حکمران جماعت اور تحقیقات کے لیے پیش ہونے والے دیگر متعلقین جس طرح مسلسل جے آئی ٹی کے اراکین اور اس کے طریقہ کار کو نشانہ بنا رہے ہیں یہ ایک طے شدہ رویہ لگتا ہے۔اس رویے کا اظہار حکمران خاندان کی بوکھلاہٹ کو واضح کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران خاندان کو اس حوالے سے قانون کی پابندی کا مظاہرہ کر کے پورے سماج کے لیے مثال بننا چاہیے، نہ کہ اداروں کا مذاق اڑا کر اداروں کی کمزوری اور شخصیات و خاندانوں کی مضبوطی کا تاثر دینا چاہیے۔ یاد رہے کہ اس بار سماج کی غالب تعداد قانون کا ساتھ دے گی ۔