بیلجیئم کی کیتھولک یونیورسٹی آف لیون میں میرا ایڈمشن کنفرم ہو گیا تو اب اگلا مرحلہ کنویئنس کا تھا . یونیورسٹی میں پہلے سے موجود سیالکوٹ کے دوست جنکا نام مشتاق تھا ، ہر معاملہ نمٹانے میں پیش پیش ہوتے تھے . بولے یہاں سائیکل پاپولر سواری ہے اور ہم ملکر ایک سائیکل کل بنا لیں گے . بنالیں گے ؟
میں نے حیرت سے پوچھا .
اگلے دن ہم سائیکل اسٹینڈ پہنچے اور آخری لائن کے ہینگرز میں لٹکے مختلف ادھورے سائیکلوں سے مطلوبہ پارٹس کو شغل شغل میں علیحدہ کرتے گئے اور جب سب حصے اکٹھے ہو گئے تو بعد میں سب کو جیسے تیسے اسمبل کر کے ایک نیا سائیکل بنا ڈالا جس کا ہینڈل ایک کا فرنٹ وھیل دوسرے اور ریئر وھیل تیسرے سائیکل کا تو اسٹینڈ کسی اور کا تھا . مگر یہ سارا انتظام عارضی ثابت ہوا کیونکہ جلد ہی میرا یہ سائیکل بھی کوئی لے اڑا . بہرحال مجھے زیادہ افسوس نہ ہوا کیونکہ پانی تو گیا بس پانی میں .
اس واقعہ کے تقریباً بیس سال بعد مجھے عمرے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں حرمین میں مساجد کے اندر اور باہر جوتیوں کیساتھ بھی ملتا جلتا معاملہ تھا . نئے جوتے کیساتھ جاؤ تو واپسی پر پرانے چپل پہن کر آؤ . مگر کوئی بھی برا نہیں مناتا کہ دوسرے کی چپل کوئی جان بوجھ کر تو لے نہیں جاتا . اتنا رش اور ان گنت ملتی جلتی جوتیاں اور ملتے جلتے شیلف . ایک شیلف میں رکھتے ہیں تو دوسرے تیسرے میں ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں . وہاں قیام کے دوران مجھے کیمپس والا خود کا ساختہ سائیکل بہت یاد آیا .
جواب میں انہوں نے مختصراً اپنی آب بیتی سنائی کہ اسٹیشن کے قریب انکا تالا بند سائیکل چوری ہو گیا تو قریب موجود پولیس والے کے پاس گئے اور اسے چوری کی شکایت کی تو اس نے کہا آپ کوئی دوسرا اٹھا لو . انہوں نے سمجھا شاید پولیس والا مزاق کر رہا ہے . بعد میں انہوں نے ایک بیلج سٹوڈنٹ دوست کو اس بات کا زکر کیا تو اس نے کہا کہ یہاں یہ کامن پریکٹس ہے . جو سٹوڈنٹ پاس ہو کر یہاں سے چلے جاتے ہیں ، وہ اپنا سائیکل کیمپس کے سائیکل سٹینڈ میں چھوڑ جاتے ہیں جو نئے سٹوڈنٹ لے لیتے ہیں اور جن کو نہیں ملتا وہ مختلف سائیکلوں کے پارٹس اکٹھے کر کے اپنے لیے ایک سائیکل اسمبل کر لیتے ہیں .
اگلے دن ہم سائیکل اسٹینڈ پہنچے اور آخری لائن کے ہینگرز میں لٹکے مختلف ادھورے سائیکلوں سے مطلوبہ پارٹس کو شغل شغل میں علیحدہ کرتے گئے اور جب سب حصے اکٹھے ہو گئے تو بعد میں سب کو جیسے تیسے اسمبل کر کے ایک نیا سائیکل بنا ڈالا جس کا ہینڈل ایک کا فرنٹ وھیل دوسرے اور ریئر وھیل تیسرے سائیکل کا تو اسٹینڈ کسی اور کا تھا . مگر یہ سارا انتظام عارضی ثابت ہوا کیونکہ جلد ہی میرا یہ سائیکل بھی کوئی لے اڑا . بہرحال مجھے زیادہ افسوس نہ ہوا کیونکہ پانی تو گیا بس پانی میں .
اس واقعہ کے تقریباً بیس سال بعد مجھے عمرے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں حرمین میں مساجد کے اندر اور باہر جوتیوں کیساتھ بھی ملتا جلتا معاملہ تھا . نئے جوتے کیساتھ جاؤ تو واپسی پر پرانے چپل پہن کر آؤ . مگر کوئی بھی برا نہیں مناتا کہ دوسرے کی چپل کوئی جان بوجھ کر تو لے نہیں جاتا . اتنا رش اور ان گنت ملتی جلتی جوتیاں اور ملتے جلتے شیلف . ایک شیلف میں رکھتے ہیں تو دوسرے تیسرے میں ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں . وہاں قیام کے دوران مجھے کیمپس والا خود کا ساختہ سائیکل بہت یاد آیا .
خبردار : پاکستان میں کسی دوست کو یہ ترکیب سوجھے تو مطلقاً باز رہے . ھاں البتہ اپنی ذمہ داری پر…