358

فیس بک کے پلیٹ فارمز سفید فام نسل پرستی کے لیے بند

فیس بک نے بدھ کے روز سفید فام قوم پرستی اور علیحدگی پسندی کی اپنے پلیٹ فارم پر حمایت، تعریف اور ترجمانی پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ فیصلہ نیوزی لینڈ میں سفید فام دہشت گردی کے واقعات کے بعد کیا گیا ہے جہاں دو مساجد پر حملوں کے نتیجے میں پچاس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

شہری حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی سب سے بڑے ادارے فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر انتہا پسندی روکنے میں ناکام ہو گیا ہے کیوں کہ نیوزی لینڈ حملے میں سفید فام انتہاپسند نے حملے کی فوٹیج فیس بک کے لائیو سٹریمنگ فیچر کو استعمال کرتے ہوئے نشر کی۔

فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پر یہ دباؤ تھا کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز سے سفید فام انتہاپسندی اور نیو نازی تحریک کا مواد ہٹائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فیک نیوز یعنی جھوٹی اور من گھڑت خبروں اور دشنام طرازی پر مبنی پوسٹس کو بھی ختم کریں۔

اس کے جواب میں فیس بک نے اپنی مانیٹرینگ ٹیم کے ذریعے ایسے تمام پیجز اور چیزوں کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے جنہیں سفید فارم انتہاپسند گروپ استعمال کر رہے تھے۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس بات کا جواب دہ ہونا چاہئے کہ ان کے صارفین کیا پوسٹ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سفید فام انتہاپسندی پر مبنی مواد پر بہت پہلے ہی پابندی لگ جانی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا ’’میں پھر بھی خوش ہوں کہ وہ اس پر پابندی لگا رہے ہیں اور یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر پھر بھی بین الاقوامی طور پر یہ مباحثہ ہونا چاہے کہ کیا ہم نے جو کیا ہے وہ کافی ہے؟‘‘

کرائسٹ چرچ میں ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہاں کرائسٹ چرچ کے واقعات میں ہمارے لئے سبق ہیں اور ہم نہیں چاہتے ہیں کہ کسی اور کو ایسے سبق سیکھنے کی نوبت آئے۔‘‘

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسیڈا آرڈن مساجد پر حملے کی متاثرہ خواتین کے ساتھ۔

فیس بک اپنی اس پالیسی پر عمل اگلے ہفتے سے کرے گا جس کا اطلاق فیس بک کے دونوں پلیٹ فارمز، فیس بک اور انسٹا گرام پر ہو گا۔

فیس بک نے سفید فام انتہا پسندی کو بہت پہلے بین کر دیا تھا مگر سفید فام قوم پرستی اور سفید فام علیحدگی پسندی کے نظریات کو اس سے پہلے نسل پرستی میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

ٹیک پبلی کیشن مدر بارڈ کے مطابق فیس بک ان نظریات میں پہلے تفریق کرتا تھا۔

شہری حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ ان نظریات میں کوئی بھی تفریق ممکن نہیں ہے۔

اپنے ایک بیان میں فیس بک نے کہا ہے کہ وہ پہلے قوم پرستی اور علیحدگی پسندی کے وسیع نظریات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ایسے نظریات ’’لوگوں کی شناخت کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔‘‘

’’مگر پچھلے تین مہینے میں شہری حقوق کے کارکنوں اور ماہرین سے گفتگو کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سفید فام قوم پرستی اور علیحدگی پسندی کو سفید فام انتہا پسندی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

فیس بک نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ مستقبل میں بھی بہت سی قومیں اپنی میراث پر فخر کر سکیں گی مگر سفید فام قوم پرستی اور علیحدگی پسندی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

فیس بک نے کہا ہے کہ ’لائف آفٹر ہیٹ‘ نام کے ایک ادارے کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ فیس بک میں سفید فام انتہاپسندی سے متعلق مواد کو ڈھونڈیں۔

امریکی کانگریس میں ہوم لینڈ سیکورٹی کمیٹی کے چیئرمین بینی تھامسن نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ فیس بک نے یہ قدم اٹھانے میں کافی دیر کر دی۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ بہت پہے ہو جانا چاہئے تھا۔ فیس بک نے بہت زیادہ عرصے تک اپنے پلیٹ فارم پر نفرت پر مبنی تحریر و تقریر کی اجازت دی، اور ایسے تشدد کی بھی، جو اس کے نتیجے میں ہوا۔ اور اپنے پلیٹ فارم کو پراپیگنڈے کے لئے استعمال ہونے دیا ہے۔ کیونکہ اربوں لوگ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے ہم ان سے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں