حالیہ سیاسی عدالتی کشمکش میں ن لیگی مذہبی و لبرل دانشور مغالطوں کے سہارے لوگوں کو گمراہ کرنے کا فریضہ انجام دے کر مفت میں عطاالحق قاسمی بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بلند مقام حاصل کرنے کے لیے پوری زندگی شریفوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا پڑتا ہے۔
پہلا مغالطہ جو سرعام پھیلایا جا رہا ہے یہ ہے کہ حالیہ کشمکش میں نواز شریف کی حمایت محض ایک سیاسی موقف ہے اور اخلاقی طور پر حق و باطل کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ موقف تب تک درست ہے جب تک کسی کی بددیانتی ثابت نہیں ہو جاتی۔ گویا ایک سزا یافتہ کی طرف داری سے آپ کے اخلاقیات کو کوئی سروکار نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو بتایا جائے پھر اخلاقی وجود کے عناصر ترکیبی کیا ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کیا اس بات کے جواز کے لیے کافی ہے۔ یہ معاملہ تو اتنا اہم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے مقابلے میں ابوبصیر کو مدینہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے اور جلیل القدر صحابہ کرام ایک دوسرے کے خلاف تلواریں کھینچ کر میدان میں آجاتے ہیں۔
اس لیے کہ انسانی سماج پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا عامل سیاست ہے اور اس کو بددیانت و نااہل لوگوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں امانت اہل افراد کے سپرد کرنے کا کہا ہے اور ووٹ کو گواہی قرار دیا گیا ہے علما کی طرف سے۔ مگر یہاں ببانگ دہل اعلان کیے جا رہے ہیں کہ اگر مقتدر قوتیں ولی کو بھی لے آئیں تو اس کے مقابل شریف خاندان کا ساتھ دیا جائے گا بددیانتی کے اعتراف کے باوجود۔ یہ خبث باطن اور تعصب چھپانے کی ایک بدترین حالت کے سوا کچھ نہیں۔ لاریب اس بارے ہر ایک سے پوچھا جائے گا اور جنت جہنم کے فیصلے کا یہ حصہ ہوگا۔
دوسرا مغالطہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی لڑائی میں جمہوریت اور عوام کے حق نمائندگی کا استعارہ ہمیشہ مقتدر قوتوں کے خلاف اور سیاسی شخصیات سے عبارت ہے۔ چاہے سیاسی حکمران بدترین قسم کی سول آمریت کا شکار اور دھاندلی کی پیداوار ہو اور اسٹیبلشمنٹ احتساب پر مبنی حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے لیے کوشاں۔ یعنی یہ کوئی مستقل قاعدہ نہیں بلکہ حالات کے تحت فیصلہ کیا جائے گا کہ عوام اور ملک کے مفاد کے لیے کون کوشاں ہے اور کس کی حمایت کی جائے۔ اگرچہ اس ملک کی تاریخ مقتدر قوتوں کے خوفناک تجربات اور جرائم سے بھرپور ہے مگر یہ ہمیشگی کے لیے اس کی ہر کوشش کو مجسم شر بنا کر پیش کرنے کا اصولی جواز فراہم نہیں کرتی۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ کسی بدعنوان کے کندھوں پر کھڑے ہو کر نہیں لڑی اور جیتی جا سکتی۔
تیسرا مغالطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ عدالتی فیصلہ چونکہ کسی کی ایما پر ایک مقبول عوامی لیڈر کے خلاف سنایا جا رہا ہے اس لیے اس کی حیثیت مشکوک ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر میرٹ پر مبنی فیصلہ کسی کی خواہش کی مطابقت میں بھی سنایا جائے تو اس سے اس کی کریڈیبیلٹی متاثر نہیں ہوتی۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر چاہے سیاست دانوں کے حق میں ہو ناقابل قبول ہے۔ مثلا زرداری کے خلاف ریفرنسز کا ختم کرنا جمہور کے ایک بڑے حصے ( پیپلز پارٹی) کے بقول جمہوریت کی بقا کے لیے اہم ہونے کے باوجود عدل کے خلاف ہے۔
چوتھا مغالطہ اس بات پر مبنی ہے کہ جمہوریت میں منتخب حکمران احتساب سے بالاتر ایک مخلوق ہے اور اس کی جواب دہی عوامی نمائندگی کے بنیادی اصول کی توہین ہے۔ یہ بیانیہ ہمارے بدعنوان سیاست دانوں نے اپنی بقا کو جواز فراہم کرنے کے لیے برسوں سے دانشوروں پر کی گئی سرمایہ کاری کی بدولت کامیاب کرایا ہے۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کا آغاز ہی حکمرانوں کے جواب دہی کے تصور سے ہوا تھا اور اس کے بنا یہ بادشاہت ہے۔
پانچواں مغالطہ یہ ہے کہ ملک کی ترقی و بقا جمہوریت کے تسلسل میں ہے چاہے حکمران صدیوں اس ملک کو نوچ نوچ کر کھاتے رہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ مخصوص حالات کے تحت بنیادی اصلاحات کیے بغیر یہ وہ گھن چکر ہے جو ہماری نسلوں کو بھی تباہ کرتا رہے گا۔ جمہوریت میں یقینا بقا ہے مگر صرف اسی وقت جب یہ اپنی روح کے مطابق عمل پذیر ہو۔ شفاف انتخابات، احتساب اور عدل اجتماعی کو بروئے کار لاتے ہوئے۔
چھٹا اور آخری مغالطہ جو زوروشور سے نمایاں کیا جا رہا ہے کہ جب یہ جنگ اسٹیبلشمنٹ سے ماورا سیاسی قوتوں کے مابین ہو گی تبھی ہم فیصلہ کریں گے کہ کون اخلاقی طور پر حمایت کا سزاوار ہے ۔ یہ ایسا ہی بہانہ ہے جیسے کافر کہتے تھے کہ ہم جب تک فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے۔ خدا نے جواب دیا تم پھر بھی منکر رہو گے کسی اور دلیل کے سہارے۔ اس لیے کہ جو شخص اس وقت اخلاقی قدروں کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔